Pages

Monday, 7 August 2017

دیکھنا تحریر کی لذت: اردو ادب کے قاری کو کیا پڑھنا چاہئے؟

دیکھنا تحریر کی لذت: اردو ادب کے قاری کو کیا پڑھنا چاہئے؟

مصنف: عتیق بزدار

انسان نے تہذیب و تمدن کی طرف دو واضح قدم اٹھائے۔ ایک زبان اور دوسرا تحریر کی ایجاد۔ 
ابلاغ کی ضرورت اور ترسیلِ خیالات و جذبات انسان کے نظمِ اجتماعی کی ترتیب کے لئے ضروری تھے۔ سو زبان ظہور پذیر ہوئی، منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کہیں زمانوں کی دھند میں کھو نہ جائیں۔ اور حالات و واقعات کے زمانی و مکانی ربط میں دقت نہ پیش آئے۔ اس پسِ منظر میں تحریر نے جنم لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے جمالیاتی شعور نے تحریر کی نوک پلک سنواری۔ شعور کی اس مشاطگی نے ادب کو جنم دیا۔ انسان کی ابلاغی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تحریر نے انسان کے جمالیاتی شعور کی تسکین کا بیڑا بھی اٹھا لیا۔ ادب کی چھتری تلے تحریر نے کئی روپ بدلے کئی سوانگ رچائے۔ نثر میں ناول، افسانہ، انشائیہ، ڈرامہ اور تنقید کی اصناف سامنے آئیں تو شاعری نے ہمیں نظم، غزل، مرثیہ و قصیدہ سے روشناس کرایا۔

ادب نثری اصناف کی صورت ہو یا شعر کے دلنواز آہنگ میں، بنیادی طور پر دو اجزاء کا مرکب ہوتا ہے۔ خیال اور اسلوب۔ یہ دونوں گوشت اور ناخن کے رشتے کی مانند ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ خیال کا ہیولیٰ جب خوبصورت اسلوب کے سانچے میں آ جاتا ہے تو وہ تخلیقی ادب کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ اسلوب، جذبہ و خیال کا ایسا پیرائیہء اظہار ہے جو منفرد و دلنشیں ہوتا ہے۔ اسلوب کی دلکشی عبارت کی سلاست، روانی اور ابلاغ کی مرہونِ منت ہے۔ انسان کی ندرتِ افکار کسی تحریر کا مواد پیدا کرتی ہے تو اس کا طرزِ خاص تحریر کی ہئیت کا تعین کرتا ہے۔ اسلوب کسی لکھنے والے کا وہ طرزِ ادا یا طریقِ نگارش ہے جس سے اس کی انفرادیت جھلکتی ہو۔ آسکر وائلڈ نے کہا تھا
“One’s style is one’signature always”۔
مثلاً ابوالکلام آزاد کا طرزِ خاص ندرتِ بیاں اور طرفگیء اظہار سے مزین ان کی بنی ٹھنی نثر ہے۔ ان کی الہلالی نثر خطیبانہ اور شاعرانہ ہے تو غبارِ خاطر اور ترجمان القرآن کی نثر انتہائی نفیس، متین اور دلنشین ہے۔ فرحت اللّٰہ بیگ کی زباں نرم و نازک اور مصری کی ڈلی کی طرح شیریں ہے۔ دلی سکول کا بانکپن اور محاوروں کو برتنے کا سلیقہ شاہد احمد دہلوی اور اشرف صبوحی کی نثر میں جھلکتا ہے۔ حجاب امتیاز علی نے نثر میں ایسی نغمگی پیدا کی ہے کہ شاعری کا گماں ہوتا ہے۔ چراغ حسن حسرت کا طرزِ نگارش اس قدر شستہ و شگفتہ ہے کہ لفظ در لفظ دل میں اتر جاتے ہیں۔ اردو ادب کا سرمایہ ایسی ان گنت مثالوں سے لبریز ہے۔
ذیل میں اردو ادب کی چند معروف کتابوں کے نام دیئے گئے ہیں۔ اس فہرست کا مقصد نئی نسل میں مطالعہ کے زوال پذیر شوق کا احیاء ہے۔ فہرست میں اردو ادب کے نئے اور پرانے چراغوں کو شامل کیا گیا ہے جو ایوان ادب کی فصیلوں پہ نمایاں ہیں۔ جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی اور طرزنو بھی ہے۔ ان کتب کے مطالعہ سے نئے قاری پر اردو زبان میں اسالیب بیان کی ثروت بھی منکشف ہو گی اور ہماری تہذیبی روایت سے زمانی و مکانی ربط بھی محسوس ہو گا۔ ہمارے جمالیاتی شعور کا ترفع اور ذہن کی جمالیاتی فعلیت اچھے مطالعے و مشاہدے سے مشروط ہے۔ اسی مطالعہ سے تدبر و تفکر کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ تہذیبی سرمائے سے آگہی ایک منفرد تہذیبی تشخص اور مثبت داخلی تفاخر کو بھی جنم دیتی ہے۔ اسی لیے دوستوں کے استفسار پر قابلِ مطالعہ کتب کی یہ فہرست عم زادہ ء عزیز توحید الرحمٰن خان کی رہنمائی اور مشورے سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ فہرست ان قارئین کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہےجو اردو ادب کے عظیم الشان سرمائے میں سے پہلے پہل ان فن پاروں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں جو قبولِ عام اور بقائے دوام کا مرتبہ حاصل کر چکے ہوں اور جن کے تخلیقی محاسن، اسلوب اور زبان وبیان کی رفعت و عظمت پر کلام کی گنجائش مشکل ہو۔ اس فہرست میں داستان، ناول، افسانہ، آپ بیتی، ڈرامہ، خاکہ، مضمون، خط سبھی اصناف شامل ہیں۔ نئے پڑھنے والوں کو چاہیئے کہ دورانِ مطالعہ مشکل الفاظ، تراکیب اور محاوروں کی تفہیم کے لئے اچھی سی لغت مثلاً نور اللغات، جامع اللغات، فرہنگِ آصفیہ وغیرہ سے رجوع کرتے رہیں۔
1۔ رستم و سہراب – آغا حشر کاشمیری
2۔ خیالستان- سجاد حیدر یلدرم
3۔ فردوسِ بریں- دل گداز ( مجموعہ مضامین) مرتب ڈاکٹر فاروق عثمان – عبد الحلیم شرر
4۔ افاداتِ مہدی- مہدی افادی
5۔ مردم دیدہ، مضامینِ حسرت- چراغ حسن حسرت
6۔ دانہ و دام، گرہن – راجندر سنگھ بیدی
7۔ زندگی نقاب چہرے – غلام عباس
8۔ مٹی کا دیا، صحرا نورد کے خطود – میرزا ادیب
9۔ امراؤ جان ادا – مرزا ہادی رسوا
10۔ انار کلی، چاچا چھکن- امتیاز علی تاج
11۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں- اشرف صبوحی
12۔ دلی کی بپتا- چند ادبی شخصیتیں- شاہد احمد دہلوی
13۔ دلی جو ایک شہر تھا- ملا واحدی
14۔ زندگی، محبوبِ خدا- چوہدری فضل حق
15۔ خونِ جگر ہونے تک – فضل احمد کریم فضلی
16۔ مقالاتِ شبلی – شبلی نعمانی
17۔ مجموعہ راشد الخیری
18۔ جمالستان، نگارستان – نیاز فتحپوری
19۔ مضامینِ پطرس- پطرس بخاری
20۔ لحاف، ٹیڑھی لکیر- عصمت چغتائی
21۔ خدا کی بستی – شوکت صدیقی
22۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں – شمس الرحمٰن فاروقی
23۔ گردِ راہ- اختر حسین رائے پوری
24۔ ناممکن کی جستجو- حمید نسیم
25۔ یادوں کی برات- جوش ملیح آبادی
26۔ جہانِ دانش- احسان دانش
27۔ غبارِ خاطر، تذکرہ- ابوالکلام آزاد
28۔ شہاب نامہ- قدرت اللّٰہ شہاب
29۔ آگ کا دریا- قرت العین حیدر
30۔ مجموعہ ڈپٹی نذیر احمد
31۔ مضامینِ فرحت اللّٰہ بیگ
32۔ خاکم بدہن، آبِ گم- مشتاق احمد یوسفی
33۔ مضامینِ رشید- آشفتہ بیانی میری- رشید احمد صدیقی
34۔ اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم – ابنِ انشا
35۔ بیگمات کے آنسو- خواجہ حسن نظامی
36۔ فسانہ ء آزاد- پنڈت رتن ناتھ سرشار
37۔ باغ و بہار – میر امن
38۔ فسانہ ء عجائب – رجب علی بیگ سرور
39۔ طلسم ہوش رُبا – محمد حسین جاہ و احمد حسین قمر (انتخاب محمد حسن عسکری)
40۔ ناقابلِ فراموش- دیوان سنگھ مفتون
41۔ پسِ دیوارِ زنداں- شورش کاشمیری
42۔ زیرِ لب – صفیہ جان نثار اختر
43۔ احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے دن- مولانا سید مناظر احسن گیلانی
44۔ آپ بیتی- مولانا عبد الماجد دریا آبادی
45۔ محشرِ خیال – سجاد انصاری
46۔ رانی کیتکی کی کہانی – انشاء اللّٰہ خاں انشاء
47۔ داستانِ امیر حمزہ
48۔ آوازِ دوست، لوحِ ایام – مختار مسعود۔ 49۔ بجنگ آمد، بزم آرائیاں- کرنل محمد خان
50۔ نیرنگِ خیال، آبِ حیات – محمد حسین آزاد
51۔ تفہیم القرآن، تنقیحات – سید ابوالاعلیٰ مودودی
52۔ سودیشی ریل – شوکت تھانوی
53۔ یادگارِ غالب، مقدمہ شعر و شاعری – الطاف حسین حالی
54۔ انتخابِ مضامینِ سرسید مرتب انور صدیقی
55۔ کالا پانی- جعفر تھانیسری
56۔ آرائشِ محفل، طوطا کہانی – حیدر بخش حیدری
57۔ طرح دار لونڈی – منشی سجاد حسین لکھنوی
58۔ حریفِ آدم- ڈاکٹر نصیر احمد ناصر
59۔ ہم سفر – حمیدہ اختر حسین رائے پوری
60۔ لیلیٰ کے خطوط- قاضی عبد الغفار
61۔ بزمِ آخر – منشی فیض الدین دہلوی
62۔ مجموعہ منشی پریم چند
63۔ آخری آدمی، چراغوں کا دھواں، علامتوں کا زوال – انتظار حسین
64۔ سرگذشت – عبدالمجید سالک
65۔ چاکی واڑا میں وصال، مکاتیبِ خضر- محمد خالد اختر
66۔ آنگن- خدیجہ مستور
67۔ سب افسانے میرے- ہاجرہ مسرور
68۔ سات سمندر پار- بیگم اختر ریاض الدین
69۔ میری ناتمام محبت- حجاب امتیاز علی
70۔ مضامینِ فلک پیما- عبد العزیز فلک پیما
71۔ کپاس کے پھول- احمد ندیم قاسمی
72۔ اداس نسلیں- عبداللّٰہ حسین
73۔ افکارِ پریشاں – جسٹس ایم آر کیانی
74۔ نقوش شخصیات نمبر
75۔ مضامینِ فلک پیما – عبد العزیز فلک پیما

Monday, 1 May 2017

چکوال اور بھوپال کی روحانی نسبت — عتیق بزدار

عیسوی سن سترہ سو سات میں وادی ء تیراہ کے اورکزئی پشتون نواب دوست محمد خان نے ریاست بھوپال کی نیو ڈالی۔ آگے چل کر اس ریاست نے بیگمات کی حکمرانی اور رجالِ علم و فن کی غایت درجہ قدر دانی کے باعث شہرت پائی۔ آج بھوپال بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا حصہ ہے۔ بھوپال سے قریب سات سو بائیس میل کے ہوائی فاصلے پر پاکستان کا شہر چکوال واقع ہے جسے جموں سے ہجرت کرنے والے مائر راجپوتوں نے آباد کیا تھا۔ پرانے وقتوں میں چکوال علاقہ "دھن” کی انتظامی عملداری کا صدر مقام تھا۔ پاکستان بننے کے بعد چکوال ضلع جہلم کی تحصیل تھا تاآنکہ 1985 میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ چکوال اور بھوپال میں جغرافیائی نسبت تو کوئی بھی نہیں مگر شہر چکوال سے آٹھ میل پرے بھون کا تاریخی قصبہ بھوپال اور چکوال میں روحانی نسبت کا موجب ہے۔
شہر چکوال کے وسط سے کلر کہار کی سمت ایک سڑک پھوٹتی ہے۔ گنجان آبادی چھٹنے پر کیکر کے دو رویہ درخت اس سڑک کو آغوش میں لے لیتے ہیں۔ سال میں دو بار جب یہ سودیشی درخت زرد پھولوں کا پیراہن پہنتے ہیں تو دیدہ ء بینا کے لیے علاقہ "دھن” کی اس سڑک پہ کسی جہان دیگر کے جادہ ء حسیں کا گماں ہوتا ہے۔ کیکروں کی قطاروں کی تان بوہڑ کے تین پرانے پیڑوں پہ ٹوٹتی ہے جن کے داہنی طرف قصبہ بھون کی ایک گلی میں قلندرِ زماں حضرت اسد الرحمٰن قدسی رح کا مزارِ پُر انوار واقع ہے۔ حضرت قدسی رح 1949میں بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے۔ وہ ایک صائم الدہر ولی تھے جنہیں قلندر مہری، قلندر قہری، قلندر دہری کی منازل سے آگے قلندرِ زماں کا رتبہ ملا۔ قدوت السالکین حضرت قدسی رح ایک صاحبِ نصابِ طریقت ولی ہونے کے ساتھ ساتھ زبانِ فارسی کے ایک شیریں مقال شاعر بھی تھے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج بہت کم لوگ حضرتِ قدسی کے مراتب و مقامات سے واقف ہیں۔ شاید ادراکِ عظمت کے لیے عظمت بجائے خود بھی اک لازمہ ہے کہ ایک دور میں علامہ اقبال، مولانا اشرف علی تھانوی، خواجہ حسن نظامی، جگر مراد آبادی، ریاست بھوپال اور ریاست بہاولپور کے نوابین اور مہاراجہ کشن پرساد جیسی نام نامی ہستیاں حضرتِ قدسی کے ارادتمندوں میں شامل تھیں۔ ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا نواب حمید اللّٰہ خان ( ‘ضرب کلیم’ کا انتساب ان کے نام ہے) کے دور میں جب اقبال ریاست بھوپال جایا کرتے تھے تو حضرتِ قدسی رح کے آستانے پر ضرور حاضری دیا کرتے تھے۔ بھوپال کے آستانہ قدسی پر اقبال نے یہ رباعی کہیچشمہ ء فیض تشنہ لب کے لیے
مرکزِ رُشد بہر اہلِ صفا
کوئی سمجھے تو ہے مقامِ قدس
آستانہ جنابِ قدسی رح کا
 (بھوپال- 1936)
حضرتِ قدسی رح کا اسمِ گرامی اسد الرحمٰن تھا۔ مولانا شاہ سلمان پھلواری رح نے آپ کو "حبیب الاولیاء” جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی رح نے آپ کو "ولی الاشرف” کا لقب عطا فرمایا۔ آپ کا شجرہ ء طیبہ امام جعفر صادق رح سے ہوتا ہوا حضرت علی کرم اللّٰہ وجہ ملتا ہے۔ آپ کے جدِ امجد شیخ ابی المکارم سبزوار سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے اور مولانا عبد القدوس گنگوہی رح کے خاندان میں متاہل ہوئے۔ ان سے جو نسل چلی وہ سادات سبزواری کہلائی۔ حضرتِ قدسی کے دادا شاہ نجف علی قلندر، حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رح کے خلیفہ مجاز تھے۔ ان کا نکاح مولانا رشید احمد گنگوہی رح کی خواہر محترمہ سے ہوا جن کے بطن سے شاہ حبیب الرحمٰن قلندر رح تولد ہوئے۔ جنہوں نے علومِ دینیہ کی تعلیم مولانا رشید احمد گنگوہی رح کے زیر سایہ حاصل فرمائی اور اپنے والد گرامی کی طرف سے طریقہ ء قلندریہ میں مجاز قرار پائے۔ شاہ حبیب الرحمٰن قلندر کا عقد علامہ محمد اسحٰق کی دختر سے ہوا جن کے بطن سے مصباح السالکین حضرت اسد الرحمٰن قدسی تولد ہوئے۔
ریاست بھوپال مردم شناسی کی ایک طویل روایت کی امین ہے۔ بیگمات کے دور سے لے کر نواب حمید اللّٰہ خان کے دور تک نطق و فن کی تکریم کے سبب ہندوستان کے طول و عرض سے باکمالانِ علم وفن بھوپال کھنچے چلے آتے تھے۔ اسلم جیراجپوری اپنی کتاب "تاریخ الامت” میں لکھتے ہیں کہ بھوپال کی حیثیت اس وقت کے بغداد الہند کی تھی۔ مختلف وقتوں میں سر راس مسعود، علامہ اقبال، مضطر خیر آبادی، ظہیر الدین دہلوی، عبدالرحمٰن بجنوری، نیاز فتحپوری اور اسلم جیراجپوری بھوپال مقیم رہے۔ اقبال کا ریاست بھوپال سے توسل سر سید احمد خان کے پوتے سر راس مسعود کے طفیل قائم ہوا جو ریاست بھوپال کے وزیرِ تعلیم تھے۔ زاں بعد یہ توسل اقبال اور نواب حمید اللّٰہ خان کے بیچ گہری عقیدت میں تبدیل ہو گیا۔ ادبی اور سیاسی شخصیات سے تعلقات کے علاوہ گوشہ نشیں فقراء اور قلندر مشرب بندگانِ خدا سے اقبال گہری وابستگی رکھتے تھے۔ حضرتِ قدسی رح سے اقبال کا سلسلہ ء مراسلت ریاست بھوپال سے وظیفہ یاب ہونے سے قبل کا ہے۔ 1936 میں جب اقبال بھوپال تشریف لائے تو ان دنوں مصباح السالکین حضرت قدسی رح بھوپال سے چار میل پرے باغِ ثمرستان میں رونق افروز تھے۔ دامن کوہ میں فراوانی ء حسنِ فطرت سے معمور ثمرستان میں متمکن قلندر کی صحبت نے اقبال کے قلبِ لطیف پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بعد ازاں احباب سے حال بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں
"آستانہ میں قدم رکھتے ہی انشراحِ صدر کے ساتھ رجوع الی اللّٰہ کا جذبہ ابھر آیا۔ اور منکشف ہوا کہ بے شک فقراء حق پر انوارِ ربانی کا نزول ہوتا ہے اور لطائف روشن ہوتے ہیں” ( اقتباس از "اقبال اور بھوپال” – صہبا لکھنؤی)
اقبال بلا شبہ روایتی پیر و ملا کے ہاتھ سادہ لوح مسلمان کے استحصال کی شدید مذمت کیا کرتے تھے۔ مگر اس سے کئی احباب غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں معرفت وسلوک کی افادیت سے آگہی نہیں۔ اقبال کی نجی زندگی اور شاعری دونوں میں سوز و سازِ رومی کا اثر جھلکتا ہے۔ معرفتِ کامل کے لیے وہ فقط فلسفہ و منطق و حکمیات کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ عشق کے اکسیرِ اعظم کو عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں مانتے ہیں۔ مرشدِ رومی کے علاوہ اقبال محبوبِ الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ انگلستان روانگی سے قبل محبوبِ الہٰی کے مزار پر حاضری دی اور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے مشہور نظم "التجائے مسافر” کہی. انگلستان میں قیام کے دوران حضرت شاہ سلیمان پھلواروی رح سے مسائل تصوف پر مراسلت جاری رکھی. انگلستان سے واپسی پر اقبال کا گل حسن شاہ قلندر رح سے تعلقِ خاطر پیدا ہوا. اقبال کے توسط سے حضرت گل حسن شاہ قلندر اور اسد الرحمٰن قدسی رح میں تعلق قائم ہوا. گل حسن شاہ قلندر رح نے اپنے مرید والی ء ٹونک نواب حفیظ الدین خان کو حضرتِ قدسی رح سے روحانی تعلق کی تلقین فرمائی. اسی باعث والی ئ ٹونک حضرت قدسی رح کے حلقہ ء ارادت میں شامل ہوئے. ایک محفل میں رباعیاتِ عمر خیام کا تذکرہ ہوا تو ایک صاحب نے سرمد شہید رح کی رباعیات کی مدح و ستائش کی. اقبال رح نے تائید فرمائی کے دونوں ہی بلند پایہ کلام ہیں. پھر اپنی پسندیدگی کا بتاتے ہوئے کہا کہ میں اسد الرحمٰن قدسی رح کی رباعیات کے محاسن اور معنی آفرینی کا مداح ہوں. اور ان کی ایک رباعی تو اسقدر عزیزِ خاطر ہے کہ ہردم زباں پہ جاری رہتی ہے
ہر ذرہ بہ وسعتے بیابانے ہست
ہر گُل بہ لطافتِ گلستانے ہست
در دیدہ ء مردمانِ اہلِ بینش
ہر قطرہ بہ جوشِ گریہ طوفانے ہست
حضرت قدسی رح سالکین کے لیے چراغِ راہ معرفت کا درجہ رکھتے تھے. آپ نے تمام عمر ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہنے کے علاوہ سالکین راہ طریقت کے لیے کئی کتب تحریر فرمائی. جن میں مصطلحات و تصورات پر بحث کے علاوہ اوراد و وظائف کا بیان بطریق سلسلہ فیض رحمانیہ شامل ہے. تصوف کے مروجہ تصور اور اس میں فلسفہ ء یونان کی آمیزش سے جنم لینے والے ملغوبہ کو حضرت نے قطعی طور پر رد کیا ہے. اپنی کتاب "صراط مستقیم” میں لکھتے ہیں کہ جب مسلمانوں کو حکمائے یونان کی دریافت و تحقیقات سے شناسائی ہوئی تو انہوں نے یونانی علوم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کاوشیں شروع کر دیں. اس ذیل میں مسلمانوں نے علمائے یونان کے دو بڑے گروہ مشائین اور اشراقین کا چربہ اتارا. بعض علماء نے مشائین کی روش اختیار کی اور اسلامی معتقدات کو عقلی استدلال سے ثابت کرنے کا منہاج اپنایا. اس منہاج نے علمِ کلام کو جنم دیا. ایک اور دبستان نے اشراقین اصولوں کو اسلامی اعمال پر منطبق کیا. تصوف اس کا ثمرہ ہے. علمِ کلام اور تصوف کے نام پر معروف علوم و عقائد کو رد کرنے کرنے کے بعد حضرتِ قدسی رح نے واضح کیا کہ خالص علوم اسلامیہ کی دو اقسام ہیں. علم شریعت اور علم طریقت. وہ علم شریعت کو علم الیقین اور علمِ طریقت کو عین الیقین لکھتے ہیں. ان کے نزدیک ان دونوں علوم کا ماحصل حق الیقین ہے یعنی تقرب الی اللّٰہ. حضرت قدسی رح نے اپنے لٹریچر میں بارہا اس نکتے پہ زور دیا کہ شریعت پہلا زینہ ہے اور طریقت دوسرا زینہ. الحاصل ان کے ہاں پابندِ شریعت ہوئے بغیر راہ طریقت میں کامیابی کی کوئی صورت نہیں.
حضرت قدسی رح شریعت کی طرح رشد و طریقت کی جملہ ہدایات کے لیے بھی کتاب اللّٰہ کی طرف رجوع کی تلقین کرتے ہیں. قرآن پاک میں آتا ہے
"اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرتے رہو اور اللّہ کی طرف چلنے کا وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرو تاکہ تم مراد تک پہنچو”(المائدہ. ۳۵)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں حضرت قدسی رح اتقاء، وسیلہ اور مجاہدہ کو طریقت کا اصل اصول مانتے ہیں. حضرت قدسی کی تمام عمر انہی اصولوی کی عملی تصویر ہے. جتنی اس جہانِ فانی کی مہلت تھی حضرت نے جسمانی اور روحانی مجاہدے میں صرف فرمائی. سفرِ طریقت کا آغاز حضرت یٰسین شاہ قلندر کے تکیہ پر چلہ سے کیا. چالیس دن مسلسل روزے سے رہے اور یہ آپ کی صائم الدہر کی تربیت کا آغاز تھا. واپسی پر والدہ محترمہ نے کسی ویران مسجد میں خلوت گزین ہو کر عبادت و ریاضت میں مصروف رہنے کی تلقین فرمائی. حضرت تین سال تک بھوپال شہر سے خاصی مسافت پہ واقع باغ راحت افزاء کی ویران مسجد میں متمکن رہے. اس کے بعد حضرت نے والدہ محترمہ کی وصیت پر سیر و سیاحت کا آغاز کیا. اردو کے بلند پایہ انشاء پرداز خواجہ حسن نظامی کی دعوت پر محبوبِ الہٰی خواجہ نظام الدین اولیاء رح کی درگاہ پر حاضر ہوئے. یہاں حضرت نے ۲۰۰ دن قیام کیا، پانچ چِلوں کی تکمیل کے بعد بائیس خواجہ کی چوکھٹ پر حاضری دی. مختلف مقامات کی سیر کے ساتھ سیرِ نفسی کا سلسلہ جاری رہا. اکتساب فیض کی تمنا حضرت قدسی رح کو گنگوہ شریف، کلیر شریف ،پانی پت اور اجمیر شریف لیے پھری جہاں سالک نئے مقامات و مراتب سے فیض یاب ہوا. والدہ محترمہ کی نصیحت پر بارہ سال کی جہد و ریاضت کی تکمیل کے بعد آپ کو والدِ گرامی شاہ حبیب الرحمٰن قلندر رح کا باقاعدہ جانشین مقرر کیا گیا. مختلف اوقات میں حضرت قدسی رح کو پانچ سو بزرگوں نے طریقت کے مختلف سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی جن میں قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، شاذلیہ، ناصریہ، بکتاشیہ، اور عیدروسیہ سلاسل شامل ہیں. اسی طرح حضرت کی مجمع البحرین ذات میں قلندریہ (حقیقت) کے حسب ذیل سلاسل مجتمع ہیں
طریقہ ء عالیہ قلندریہ صدیقیہ
طریقہ عالیہ قلندریہ رحمانیہ
طریقہ قلندریہ حیدریہ فیض رحمانیہ
1949 میں سرزمین پاکستان کو حضرت کے قدوم میمنت لزوم چومنے کا موقع ملا. حضرت نے بھوپال سے ہجرت فرمائی. اور شروع کے دنوں میں لاہور میں حکیم نئیر واسطی کی رہائش گاہ میں مقیم رہے. لاہور سے کوچ کیا تو سندھ میں کیرتھر کے پُرسکون مقام تھانہ بُولا خان قیام کیا. پھر کچھ مدت کوٹڑی کے آستانہ قدسی میں متمکن رہے. مارچ 1950 میں کوٹڑی آستانے پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان حاضری دی. ان دنوں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق پاکستان آنے والے تھے. لیاقت علی خان حضرت کے پرانے نیازمند تھے اور جانتے تھے کہ حضرتِ قدسی رح کے پاس "لوح خضری” ہے جو امام جعفر صادق رح سے نسل در نسل آپ کے خاندان میں چلی آ رہی ہے. لیاقت علی خان ، مصدق کو کوئی ایسا منفرد تحفہ دینا چاہتے تھے جو دونوں ملکوں کے مابین مذہبی اور تہذیبی رشتہ ء اخوت و مؤدت استوار کرے. نوابزادہ کی درخواست پر حضرت نے نقش خضری عنایت کیا جو سونے کی پلیٹ پر منقش کرایا گیا. حضرتِ خضر نے امام جعفر صادق رح کو نقش خضری عنایت کیا تھا اس میں قرآنی آیت "ن والقلم وما یسطرون” کو نشاناتِ خصوصی میں ترتیب دیا گیا ہے. نوابزادہ لیاقت علی خان نے ان الفاظ کے ساتھ تحفہ محمد مصدق کو پیش کیا "ایں لوح خضری است- قبول فرمائید از جانبِ ملک و ملتِ پاکستان”. مصدق نے نقش خضری اپنے ہاتھ میں لیا تو بے ساختہ ایک نعرہ لگایا اور ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی.
سندھ سے ہجرت کے بعد ایک مختصر مدت حضرت رح نے بہاولپور میں گزاری. بہاولپور کے بعد یہ سعادت چکوال کو نصیب ہوئی کہ کلر کہار سے چکوال جاتے ہوئے بمقام "بھون” سڑک کنارے ایک قطعہ زمیں پسند خاطر آیا. جہاں آستانہ قدسی بھون قائم کیا گیا اور اپنے وصال 12 ذوالحج 1397 ہجری تک اسی آستانے میں مقیم رہے. حضرت رح کے وصال کے بعد مولانا کوثر نیازی نے آستانے پر حاضری دی اور لکھا
"سنگِ مرمر کی سادہ اور بغیر کسی چادر اور پھولوں کے ہار کی ایک قبر میں وقت کا وہ عظیم قلندر سویا ہوا تھا جس نے قیام پاکستان سے پہلے کے برصغیر کے عظیم مشاہیر کو اپنا حلقہ بگوس بننے پر مجبور کر دیا تھا. مگر پاکستان بننے کے بعداس نے اللّٰ اللّٰہ کرنے کے لیے پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں کو منتخب کر کے پوری زندگی اس میں بِتا دی، نہ پبلسٹی، نہ کوئی پراپیگنڈا نہ جلسہ نہ جلوس نہ پوسٹر نہ پمفلٹ. پورا صوبہ تو ایک طرف پورا ضلع جہلم بھی نہ جانتا ہو گا کہ طریقت کی دنیا کا کتنا بڑا آدمی قصبہ بھون،چکوال میں قیام پذیر ہے”
کتابیات:-
معارف و طریقت…اسدالرحمٰن قدسی رح
صراط مستقیم…..اسد الرحمٰن قدسی رح
لطائف قدسیہ….اکرام علی، ڈاکٹر
اقبال اور بھوپال..صہبا لکھنوی
اقبال بھوپال میں….عبدالقوی دسنوی
احوال و آثار قلندر زماں شاہزادہ اسد الرحمٰن قدسی رح.. محمود الرحمٰن،ڈاکٹر
Gazetteer of District Jehlum 1904