عتیق بزدار
سطحِ سمندر سے سولہ ہزار فٹ بلند اور ستتر مربع کلومیٹر پر محیط ‘سنو لیک’ عام جھیلوں کے کینڈے کی جھیل نہیں بلکہ جھیل کے عمومی تصور سے ماہیت اور وسعت، دونوں اعتبار سے قدرے مختلف ہے. یہ ناپیدا کنارجھیل قراقرم کے بدن پر خلط ملط ہوتے بیافو اور ہسپر گلیشیر کے بیچوں بیچوں برف کا ایک بے انت سمندر ہے. شاید تخیلِ ڈارون سے بھی قبل کے زمانوں میں بیافو Biafo اور ہسپر Hispar کے باکرہ برفیلے بدن ٹکرائے ہوں اور اُن کے اتصال نے اس نقرئی جھیل کو جنم دیا ہو جس کا حسن اس کی وسعت اور آنکھیں چندھیا دینے والی لشک سے عبارت ہے. مثرگاں چاہے جتنی کھلیں اس کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں کہ یہ پولر ریجن سے باہر دنیا کا سب سے طویل برفانی بیسن ہے. مارٹن کان وے پہلا بدیسی سیاح تھا جس نے۱۸۹۲ میں سنو لیک کے برفیلے بدن پہ قدم رکھا. تاحدِ نگاہ برفیلی وسعتوں کو دیکھ کر مارٹن نے کہا ” دنیا بھر کی سیاحت میں ایسا سحر انگیز برفانی نظارہ ان آنکھوں کو پہلے کبھی نصیب ہوا تھا نہ آئندہ کبھی ممکن ہے”. اسی مارٹن نے ہی پہلی بار اس برفانی ویرانے کے لئے “سنو لیک’ کا نام استعمال کیا. وگرنہ مقامی بولی میں اسے “لکپے لاء” کہتے ہیں.
محبوب کی زُلفِ دوتا کی طرح بل کھاتی سکردو سے ایک جیپ روڈ وادی ء شگر کے مٹیالے پہاڑوں اور بیچ کہستان نمودار ہونے والے ہائی آلٹی چیوڈ Altitude ریگزاروں سے گزر کر آخری انسانی آبادی “اسکولے” گاؤں جاتی ہے. سطوت اور جمال کے پیکر قراقرم کے مقدسکہستانی سلسلوں کی سیر دیکھنی ہو یا آکاش کو چومتی شاہ گوری K2) (اور اس کی ہمسائی چوٹیوں کو سر کرنا ہو اسکولےکی چوکھٹ چومنا لازمہء سیر بینی ہے.سکردو سے اسکولے کی سڑک بھی ایک دلچسپ سفری تجربہ ہے. ابتلائے سفر سے مفر نہیں مگر ساتھ میں ہزار رنگ ہمسفر رہتے ہیں. پہاڑی ڈھلانوں سے چپکے لہلہاتےکھیت جو کہیں سبز کہیں گلابی ہو جاتے ہیں. یکبارگی یہ کھیت ناپید ہو جاتے ہیں تو کچھ دیر تکلامکان اور گوبی جیسا صحرا رفیقِ سفر رہتا ہے. صحرا ساتھ چھوڑتا ہے تو جلترنگ سماں چو طرف نمایاں ہوتا ہے. گہرائی میں گدلے پانیوں کا دریا. کناروں پر ڈھلان در ڈھلان کھیت اور دور برفپوش پربتوں کے برفیلے بدنوں پہ ڈورے ڈالتی آہوئے فلک کی شرارتی کرنیں. اور رنگ کی اس بارش میں بھیگتی پھرپھرر کرتی سکردو کی سخت جان نیلی پیلی جیپیں گھومتی پھرتی ہیں. تارڑ صاحب ان جیپوں کو کوہ پیماؤں کی نخریلی بلیاں لکھتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہ آئی کہ اسکولے روڈ پہ سفرِ مسلسل کا کرب جھیلنے میں نخرا کہاں ہے. اسکولے کی چوکھٹ پہئیے کے پھیر کا اتمام ہے اور اس کے بعد کے رستے سہارنا “کارِ موٹر” نہیں. گر آگے کا قصد ہے تو پاؤں کے بل جانا ہے. اسکولےسے کچھ آگے چل کر سنو لیک کا رستہ کے ٹو اوربلتورو کے رستے سے مفارقت لیتا ہے اور شمال مغرب میں بیافو کی سمت مُڑ جاتاہے.
بیافو سب جانتے ہیں کہ بازیچہء اطفال ہرگز نہیں. اسکولے گاؤں سے چار کلومیٹر پرے بیافو کا برف سمندر شروع ہوتا ہے جو بیالیس میل تک قراقرم کے رگ و پے میں سرایت کرتا ہے. اسکولے سے نکلتے ہی پتھروں میں سر دھنتے پُر شور برالڈو دریا کا خرام کوہ نوردوں کو سلامی دیتا ہے. آگے ایک بنجر ویران میدان آتا ہے جسے مقامی لوگ قیصر کا پولو گراؤنڈ کہتے ہیں. اس کے بیچوں بیچ کوہ نوردوں کے پیروں سے “کُوٹا” ہوا رستہ ہے جو آگے بلتورو جاتا ہے اور بایاں طرف بیافو کی پگڈنڈی مڑتی ہے. ایک درہ نما پہاڑی کے پار گلیشرز کا باوا آدم بیافو شروع ہوتا ہے. جو آگے ہیسپر سے مل کر پولر ریجن سے باہر دنیا کا طویل ترین پہاڑی راستہ ترتیب دیتا ہے. یہی راستہ بلتستان کو نگر سے ملاتا ہے. اور اس راستے کے کناروں پر “لاٹوک” Latok کی فلک شگاف چوٹیاں پہرہ دیتی ہیں. راستہ طویل اور کٹھن ہے مگر سنولیک جیسی محبوبہ نے وصال کے لئے “انہی راستوں پہ چل کے آنے” کی فرمائش لازم رکھی ہے.
سطحِ سمندر سے سولہ ہزار فٹ بلند اور ستتر مربع کلومیٹر پر محیط ‘سنو لیک’ عام جھیلوں کے کینڈے کی جھیل نہیں بلکہ جھیل کے عمومی تصور سے ماہیت اور وسعت، دونوں اعتبار سے قدرے مختلف ہے. یہ ناپیدا کنارجھیل قراقرم کے بدن پر خلط ملط ہوتے بیافو اور ہسپر گلیشیر کے بیچوں بیچوں برف کا ایک بے انت سمندر ہے. شاید تخیلِ ڈارون سے بھی قبل کے زمانوں میں بیافو Biafo اور ہسپر Hispar کے باکرہ برفیلے بدن ٹکرائے ہوں اور اُن کے اتصال نے اس نقرئی جھیل کو جنم دیا ہو جس کا حسن اس کی وسعت اور آنکھیں چندھیا دینے والی لشک سے عبارت ہے. مثرگاں چاہے جتنی کھلیں اس کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں کہ یہ پولر ریجن سے باہر دنیا کا سب سے طویل برفانی بیسن ہے. مارٹن کان وے پہلا بدیسی سیاح تھا جس نے۱۸۹۲ میں سنو لیک کے برفیلے بدن پہ قدم رکھا. تاحدِ نگاہ برفیلی وسعتوں کو دیکھ کر مارٹن نے کہا ” دنیا بھر کی سیاحت میں ایسا سحر انگیز برفانی نظارہ ان آنکھوں کو پہلے کبھی نصیب ہوا تھا نہ آئندہ کبھی ممکن ہے”. اسی مارٹن نے ہی پہلی بار اس برفانی ویرانے کے لئے “سنو لیک’ کا نام استعمال کیا. وگرنہ مقامی بولی میں اسے “لکپے لاء” کہتے ہیں.
محبوب کی زُلفِ دوتا کی طرح بل کھاتی سکردو سے ایک جیپ روڈ وادی ء شگر کے مٹیالے پہاڑوں اور بیچ کہستان نمودار ہونے والے ہائی آلٹی چیوڈ Altitude ریگزاروں سے گزر کر آخری انسانی آبادی “اسکولے” گاؤں جاتی ہے. سطوت اور جمال کے پیکر قراقرم کے مقدسکہستانی سلسلوں کی سیر دیکھنی ہو یا آکاش کو چومتی شاہ گوری K2) (اور اس کی ہمسائی چوٹیوں کو سر کرنا ہو اسکولےکی چوکھٹ چومنا لازمہء سیر بینی ہے.سکردو سے اسکولے کی سڑک بھی ایک دلچسپ سفری تجربہ ہے. ابتلائے سفر سے مفر نہیں مگر ساتھ میں ہزار رنگ ہمسفر رہتے ہیں. پہاڑی ڈھلانوں سے چپکے لہلہاتےکھیت جو کہیں سبز کہیں گلابی ہو جاتے ہیں. یکبارگی یہ کھیت ناپید ہو جاتے ہیں تو کچھ دیر تکلامکان اور گوبی جیسا صحرا رفیقِ سفر رہتا ہے. صحرا ساتھ چھوڑتا ہے تو جلترنگ سماں چو طرف نمایاں ہوتا ہے. گہرائی میں گدلے پانیوں کا دریا. کناروں پر ڈھلان در ڈھلان کھیت اور دور برفپوش پربتوں کے برفیلے بدنوں پہ ڈورے ڈالتی آہوئے فلک کی شرارتی کرنیں. اور رنگ کی اس بارش میں بھیگتی پھرپھرر کرتی سکردو کی سخت جان نیلی پیلی جیپیں گھومتی پھرتی ہیں. تارڑ صاحب ان جیپوں کو کوہ پیماؤں کی نخریلی بلیاں لکھتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہ آئی کہ اسکولے روڈ پہ سفرِ مسلسل کا کرب جھیلنے میں نخرا کہاں ہے. اسکولے کی چوکھٹ پہئیے کے پھیر کا اتمام ہے اور اس کے بعد کے رستے سہارنا “کارِ موٹر” نہیں. گر آگے کا قصد ہے تو پاؤں کے بل جانا ہے. اسکولےسے کچھ آگے چل کر سنو لیک کا رستہ کے ٹو اوربلتورو کے رستے سے مفارقت لیتا ہے اور شمال مغرب میں بیافو کی سمت مُڑ جاتاہے.
بیافو سب جانتے ہیں کہ بازیچہء اطفال ہرگز نہیں. اسکولے گاؤں سے چار کلومیٹر پرے بیافو کا برف سمندر شروع ہوتا ہے جو بیالیس میل تک قراقرم کے رگ و پے میں سرایت کرتا ہے. اسکولے سے نکلتے ہی پتھروں میں سر دھنتے پُر شور برالڈو دریا کا خرام کوہ نوردوں کو سلامی دیتا ہے. آگے ایک بنجر ویران میدان آتا ہے جسے مقامی لوگ قیصر کا پولو گراؤنڈ کہتے ہیں. اس کے بیچوں بیچ کوہ نوردوں کے پیروں سے “کُوٹا” ہوا رستہ ہے جو آگے بلتورو جاتا ہے اور بایاں طرف بیافو کی پگڈنڈی مڑتی ہے. ایک درہ نما پہاڑی کے پار گلیشرز کا باوا آدم بیافو شروع ہوتا ہے. جو آگے ہیسپر سے مل کر پولر ریجن سے باہر دنیا کا طویل ترین پہاڑی راستہ ترتیب دیتا ہے. یہی راستہ بلتستان کو نگر سے ملاتا ہے. اور اس راستے کے کناروں پر “لاٹوک” Latok کی فلک شگاف چوٹیاں پہرہ دیتی ہیں. راستہ طویل اور کٹھن ہے مگر سنولیک جیسی محبوبہ نے وصال کے لئے “انہی راستوں پہ چل کے آنے” کی فرمائش لازم رکھی ہے.
اسکولے سے “نملا” قریب چھ سات گھنٹے کا رستہ ہے. طویل برف زار ہے جس کے سفید بدن میں لاتعداد پتھر اور سنگریزے پیوست ہیں. پتھروں پہ چلنا بھی عجب صعوبت ہے “گوڈے گِٹے”ہر بار اِک نئے زاوئیے پہ وزن سہارتے ہیں. اور ہر قدم پہ ایک ٹیس جسم کے مضراب پہ درد کی نئی لَے چھیڑتی ہے. “نملا’ نام تو پہلی سماعت پر کسی سیمیں بدن زہد شکن حسینہ کا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً چند جھاڑیوں، ایک ندی اور زمین کے چھوٹے سے ہموار ٹکڑے پر مشتمل ایک کیمپ سائیٹ ہے. نملا دیوی کے رن چھو کے نکلو تو آگے کا رستہ برفانی دراڑوں crevasses سے پِٹا پڑا ہے جو کہ گرم سرد موسموں میں گلیشئرز کی انگڑائیوں سے پیدا ہوتی ہیں. اُس کے پار شمال میں لاٹوک ٹاور Latoke نظر آتے ہیں. لاٹوک اول7145 میٹر، لاٹوک دوئم میٹر7108 اور لاٹوک سوئم6959 میٹر بلند ہے. جنوب میں بخورداس Bakhor Das کی ۔مخروطی چوٹی اِک شاہانہ تمکنت سے براجمان ہے
نملا سے اگلا پڑاؤ 5355 میٹر بلند ‘ مانگو براک’ کے سائے تلے ایستادہ مانگو کیمپ سائیٹ ہے. ‘مانگو’ برف زاروں کے بیچوں بیچ گھاس کا اِک ہرا سمندر ہے جہاں یاک چرتے نظر آتے ہیں. چرواہے اپنے مویشی یہاں چرنے کو چھوڑ کر آگے “پنما” Panmah کو چلے جاتے ہیں. قریب ہی ‘مانگو براک’ سے اترتی سنگِ راہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی دی بہتی ہے. اور مانگو جھیل کے نام سے ایک مختصر شفاف جھیل تھوڑی بلندی پر واقع ہے.
مانگو سے “بینتھا” کیمپ سائیٹ کا سفر چار سے چھ گھنٹے پر محیط ہے. یہ کیمپ سائیٹ سطح سمندر سے 4020 میٹر بلند ہے. سن ۱۸۹۲ میں مارٹن کانوے Martin Conway) نے یہاں قیام کیا تھا اور اُس نسبت سے اسے ‘کانوے کیمپ” بھی کہا جاتا ہے. کیمپ سائیٹ سے کچھ فاصلے پر ‘بینتھا لکپر’ گلیشئر واقع ہے جو لٹوک کی پر ہیبت اونچائیوں سے اترتا ہے. مذکورہ گلیشیر سے محتاط فاصلہ رکھتے ہوئے کامریڈ لوگ آگے بڑھتے ہیں. بینتھا سے آگے کے رستے کا آغاز تو اچھا ہے. چند مختصر جھیلیں اور بید کی چند جھاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں. مگر پھر رستہ پرانی ڈگر پہ لوٹ آتا وہی پتھر وہی برفانی دراڑیں اور ان کے ستم گزیدہ کوہ نوردوں کے مظلوم پاؤں. بیافو پہاڑوں میں ایستادہ برفانی اژدھے کی طرح بل کھاتا رہتا ہے جنوب میں “سوکھا درہ” ہے. سرائیکی میں لفظ “سوکھا” آسان کے معنوں میں مستعمل ہے. لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے. سوکھا درہ درحقیقت سرائیکی والا “اوکھا” درہ ہے. سوکھا درہ پہلی بار ٹِل مین Tilman نے 1937 میں عبور کیا. یاد رہے کہ یہ وہی ٹل مین ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوبار دیومالائی برفانی انسان “یے ٹی” Yeti کو سنو لیک کے برف زار میں چہل قدمی کرتےدیکھا اور ایک میل تک اُسکا تعاقب کیا. اُس کے ہمسفر نیپالی شرپا نے یے ٹی کے نقشِ پا دیکھ کر کہا کہ یہ نشان مارخور کھانے والے بڑے یے ٹی سے قطعاً نہیں ملتے اور آدم خور چھوٹے یےٹی سے ملتے ہیں. اس پر ٹل مین نے کہا ازبسکہ یہاں انسانوں کا گزر برسہا برس سے نہیں ہوا تو طوالتِ قحط الرجال کے سبب یے ٹی کی بھوک زوروں پر ہو گی.
بینتھا سے چلو تو ایک دو گھنٹے بعد خطِ جادہ کچھ ہموار ہوتا ہے. تسکینِ خاطر کو بدن دریدہ مسافر پر فطرت کچھ مہربان ہوتی ہے اور برفانی دراڑوں سے آخر کار خلاصی ملتی ہے. آگے سنو لیک تک کے راستے کو مقامی پورٹر ازراہِ تفنن “موٹروے” کہتے ہیں. اگلا پڑاؤ مارفو غورو کا ہے. مقامی زبان میں “مارفو” سُرخ” اور “غورو” چٹانی علاقے کو کہا جاتا ہے. یہاں سفید گلیشیرز کے بلوریں بدن پر ہمسائے پہاڑوں کی شکست و ریخت سے آن گرنے والے پتھر پیوست ہو جاتے ہیں. لطافت اور کثافت کا اک ملاپ ہوتا ہے نتیجتاً برف کی سفید ردا پہ سرخ و سفید فطرتی کشیدہ کاری کے نمونے نمودار ہوتے ہیں. بس ایسا ہی ایک سنگلاخ نمونہ مارفو غورو ہے. یہاں پہنچ کر بھی گائیڈ ہنوز سنو لیک دور است کی صدا لگاتا ہے. مسافر “سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی” کی تحریک پہ چلتا ہے. برف کے عجائب کدے کا پینڈا مزید ماپو تو تبسمِ گلیشیر سے چھوٹی چھوٹی نیلگوں جھیلیں نمایاں ہوتی ہیں. سماں بدلتا ہے، مارفوغورو کا سُرخ منظر “کارفو غورو” کی بھوری چٹانوں میں تبدیل ہوتا ہے. خطِ جادہ کی تنگی کو فراخ ملتا ہے کارفو غورو میں کیمپ سائیٹ کے گردا گرد وسیع برف زار ہے. قریب قریب کوئی پہاڑی ہے نہ ہی آدم خور برفانی دراڑیں. کامریڈ لوگ اپنے لال پیلے خیموں کی طنابیں گاڑتے ہیں امید کرتے ہیں کہ کارفوغوور کی آخری کہستانی چوکھٹ چوم لی ہے تو سپنوں کی راجکماری “سنو لیک” سے معانقہ اب دائرہ ء ممکنات میں ہے.
دلِ من مسافرِ من! لمبا جو ابتلاء کا سفر وہ ختم ہونے کو ہے.اب شادمانی کا لمحہ ہے ، شاد کامی کا سمے ہے. پسِ منظر کچھ پستہ قامت پہاڑیاں ہیں اور سامنے سنو لیک برف کی تہہ در تہہ رداؤں میں ملفوف پڑی ہے. آہوئے زریں کی کرنیں سنو لیک کے روئے تاباں سے ٹکرا کے آتی ہیں تو ہمسفر کامریڈوں کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ جاتی ہیں. جھیلوں کی خوبصورتی کا مروجہ پیمانہ کار فرما ہو تو یہ کرومبر اور رتی گلی جیسی جھیل ہرگز نہیں کہ یہاں پانی ہی مفقود ہے. یہاں تو فطرت کی تونگری برف کی بہتات میں متصور ہو چکی ہے. ایک ریگزار ہے جس میں ریت نہیں برف ہے. ایک گلزار ہے جس میں لالہ و گُل نہیں برف ہے. برف ہے جو بے انتہا ہے اور بے پایاں ہے. آنکھ تھک کر لوٹ آتی ہے وسعت کو مگر اتمام نہیں.بلا شبہ یہ دنیا کی تمام جھیلوں سے منفرد جھیل ہے.زمین ایک طرف آکاش کی نیلی سب جھیلیں بھی اس کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہیں. نظر جو جنوب مشرق کو جائے تو “سم گانگ” کا گلیشیر اترتا نظر آتا ہے جو نیچے آ کے بیافو سے بغل گیر ہوتا ہے. مشرق کو درہ “لکپے لاء” ہے جہاں سے کرہ ء ارض کے بلند ترین گاؤں شمشال کا رستہ نکلتا ہے. شمال مغرب میں “ہیسپر لاء” ہے جس کے پار “ھنزہ نگر” دیس ہے. شمالی سمت سب دروں سے پُر خطر درہ “خوردوپن لاء” جہاں جانے کا خطرہ جیف ہوبن (Jeff Hobin) جیسے جفا کش اور ماہر کوہ پیما ہی لے سکتے ہیں. اگلی بار جو چلے تو کامریڈ لوگ بھی جیف ہوبن کے نقشِ پا پر چلیں گے اور خوردوپن لاء کی کٹھنائیوں کے پار اتریں گے.
بھلے وقتوں میں اقبالِ لہوری کارِ آشیاں بندی کو ذلت کہہ گزرے ہیں. یار لوگ شاید انہی کی باتوں کی تحریک پرکوہ و بیاباں میں گزر اوقات کو آساں سمجھ بیٹھتے ہیں. اب انہیں کون بتلائے کہ قراقرم سینہ کاوی مانگتا ہے اور قدم قدم پہ گلیشیر منہ کھولے بندہ نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں. پتھریلے برفیلے رستے جسم و جاں کو فگار کرنے کے منتظر ہیں. القصہ، بلائیں بہت ہیں مگر رستے راہی کھینچ ہی لیتے ہیں. ان راستوں کی نبض آوارہ مزاجوں کے دم سے چلتی ہے. کوئی راہ نورد نہ ہو تو راستے بھی زمانوں کی دھول تلے دم توڑ دیتے ہیں. شاید ان راستوں کی زندگی مقصود ہوتی ہے یا شاید سنو لیک جیسی محبوبہ کا روئے تاباں دیکھنے کا چاؤ، ہر سال چند البیلے راہی یہاں کا قصد ضرور کرتے ہیں. ِ جادہ جتنا بھی درپے آزار ہو. سر ہتھیلی پہ رکھے سرمستوں کی تمنا کی وسعت کا مقابل ٹھہر نہیں پاتا.
“قافلے ریت ہوئے دشتِ جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے”