Pages

Monday, 7 August 2017

دیکھنا تحریر کی لذت: اردو ادب کے قاری کو کیا پڑھنا چاہئے؟

دیکھنا تحریر کی لذت: اردو ادب کے قاری کو کیا پڑھنا چاہئے؟

مصنف: عتیق بزدار

انسان نے تہذیب و تمدن کی طرف دو واضح قدم اٹھائے۔ ایک زبان اور دوسرا تحریر کی ایجاد۔ 
ابلاغ کی ضرورت اور ترسیلِ خیالات و جذبات انسان کے نظمِ اجتماعی کی ترتیب کے لئے ضروری تھے۔ سو زبان ظہور پذیر ہوئی، منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کہیں زمانوں کی دھند میں کھو نہ جائیں۔ اور حالات و واقعات کے زمانی و مکانی ربط میں دقت نہ پیش آئے۔ اس پسِ منظر میں تحریر نے جنم لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے جمالیاتی شعور نے تحریر کی نوک پلک سنواری۔ شعور کی اس مشاطگی نے ادب کو جنم دیا۔ انسان کی ابلاغی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تحریر نے انسان کے جمالیاتی شعور کی تسکین کا بیڑا بھی اٹھا لیا۔ ادب کی چھتری تلے تحریر نے کئی روپ بدلے کئی سوانگ رچائے۔ نثر میں ناول، افسانہ، انشائیہ، ڈرامہ اور تنقید کی اصناف سامنے آئیں تو شاعری نے ہمیں نظم، غزل، مرثیہ و قصیدہ سے روشناس کرایا۔

ادب نثری اصناف کی صورت ہو یا شعر کے دلنواز آہنگ میں، بنیادی طور پر دو اجزاء کا مرکب ہوتا ہے۔ خیال اور اسلوب۔ یہ دونوں گوشت اور ناخن کے رشتے کی مانند ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ خیال کا ہیولیٰ جب خوبصورت اسلوب کے سانچے میں آ جاتا ہے تو وہ تخلیقی ادب کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ اسلوب، جذبہ و خیال کا ایسا پیرائیہء اظہار ہے جو منفرد و دلنشیں ہوتا ہے۔ اسلوب کی دلکشی عبارت کی سلاست، روانی اور ابلاغ کی مرہونِ منت ہے۔ انسان کی ندرتِ افکار کسی تحریر کا مواد پیدا کرتی ہے تو اس کا طرزِ خاص تحریر کی ہئیت کا تعین کرتا ہے۔ اسلوب کسی لکھنے والے کا وہ طرزِ ادا یا طریقِ نگارش ہے جس سے اس کی انفرادیت جھلکتی ہو۔ آسکر وائلڈ نے کہا تھا
“One’s style is one’signature always”۔
مثلاً ابوالکلام آزاد کا طرزِ خاص ندرتِ بیاں اور طرفگیء اظہار سے مزین ان کی بنی ٹھنی نثر ہے۔ ان کی الہلالی نثر خطیبانہ اور شاعرانہ ہے تو غبارِ خاطر اور ترجمان القرآن کی نثر انتہائی نفیس، متین اور دلنشین ہے۔ فرحت اللّٰہ بیگ کی زباں نرم و نازک اور مصری کی ڈلی کی طرح شیریں ہے۔ دلی سکول کا بانکپن اور محاوروں کو برتنے کا سلیقہ شاہد احمد دہلوی اور اشرف صبوحی کی نثر میں جھلکتا ہے۔ حجاب امتیاز علی نے نثر میں ایسی نغمگی پیدا کی ہے کہ شاعری کا گماں ہوتا ہے۔ چراغ حسن حسرت کا طرزِ نگارش اس قدر شستہ و شگفتہ ہے کہ لفظ در لفظ دل میں اتر جاتے ہیں۔ اردو ادب کا سرمایہ ایسی ان گنت مثالوں سے لبریز ہے۔
ذیل میں اردو ادب کی چند معروف کتابوں کے نام دیئے گئے ہیں۔ اس فہرست کا مقصد نئی نسل میں مطالعہ کے زوال پذیر شوق کا احیاء ہے۔ فہرست میں اردو ادب کے نئے اور پرانے چراغوں کو شامل کیا گیا ہے جو ایوان ادب کی فصیلوں پہ نمایاں ہیں۔ جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی اور طرزنو بھی ہے۔ ان کتب کے مطالعہ سے نئے قاری پر اردو زبان میں اسالیب بیان کی ثروت بھی منکشف ہو گی اور ہماری تہذیبی روایت سے زمانی و مکانی ربط بھی محسوس ہو گا۔ ہمارے جمالیاتی شعور کا ترفع اور ذہن کی جمالیاتی فعلیت اچھے مطالعے و مشاہدے سے مشروط ہے۔ اسی مطالعہ سے تدبر و تفکر کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ تہذیبی سرمائے سے آگہی ایک منفرد تہذیبی تشخص اور مثبت داخلی تفاخر کو بھی جنم دیتی ہے۔ اسی لیے دوستوں کے استفسار پر قابلِ مطالعہ کتب کی یہ فہرست عم زادہ ء عزیز توحید الرحمٰن خان کی رہنمائی اور مشورے سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ فہرست ان قارئین کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہےجو اردو ادب کے عظیم الشان سرمائے میں سے پہلے پہل ان فن پاروں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں جو قبولِ عام اور بقائے دوام کا مرتبہ حاصل کر چکے ہوں اور جن کے تخلیقی محاسن، اسلوب اور زبان وبیان کی رفعت و عظمت پر کلام کی گنجائش مشکل ہو۔ اس فہرست میں داستان، ناول، افسانہ، آپ بیتی، ڈرامہ، خاکہ، مضمون، خط سبھی اصناف شامل ہیں۔ نئے پڑھنے والوں کو چاہیئے کہ دورانِ مطالعہ مشکل الفاظ، تراکیب اور محاوروں کی تفہیم کے لئے اچھی سی لغت مثلاً نور اللغات، جامع اللغات، فرہنگِ آصفیہ وغیرہ سے رجوع کرتے رہیں۔
1۔ رستم و سہراب – آغا حشر کاشمیری
2۔ خیالستان- سجاد حیدر یلدرم
3۔ فردوسِ بریں- دل گداز ( مجموعہ مضامین) مرتب ڈاکٹر فاروق عثمان – عبد الحلیم شرر
4۔ افاداتِ مہدی- مہدی افادی
5۔ مردم دیدہ، مضامینِ حسرت- چراغ حسن حسرت
6۔ دانہ و دام، گرہن – راجندر سنگھ بیدی
7۔ زندگی نقاب چہرے – غلام عباس
8۔ مٹی کا دیا، صحرا نورد کے خطود – میرزا ادیب
9۔ امراؤ جان ادا – مرزا ہادی رسوا
10۔ انار کلی، چاچا چھکن- امتیاز علی تاج
11۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں- اشرف صبوحی
12۔ دلی کی بپتا- چند ادبی شخصیتیں- شاہد احمد دہلوی
13۔ دلی جو ایک شہر تھا- ملا واحدی
14۔ زندگی، محبوبِ خدا- چوہدری فضل حق
15۔ خونِ جگر ہونے تک – فضل احمد کریم فضلی
16۔ مقالاتِ شبلی – شبلی نعمانی
17۔ مجموعہ راشد الخیری
18۔ جمالستان، نگارستان – نیاز فتحپوری
19۔ مضامینِ پطرس- پطرس بخاری
20۔ لحاف، ٹیڑھی لکیر- عصمت چغتائی
21۔ خدا کی بستی – شوکت صدیقی
22۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں – شمس الرحمٰن فاروقی
23۔ گردِ راہ- اختر حسین رائے پوری
24۔ ناممکن کی جستجو- حمید نسیم
25۔ یادوں کی برات- جوش ملیح آبادی
26۔ جہانِ دانش- احسان دانش
27۔ غبارِ خاطر، تذکرہ- ابوالکلام آزاد
28۔ شہاب نامہ- قدرت اللّٰہ شہاب
29۔ آگ کا دریا- قرت العین حیدر
30۔ مجموعہ ڈپٹی نذیر احمد
31۔ مضامینِ فرحت اللّٰہ بیگ
32۔ خاکم بدہن، آبِ گم- مشتاق احمد یوسفی
33۔ مضامینِ رشید- آشفتہ بیانی میری- رشید احمد صدیقی
34۔ اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم – ابنِ انشا
35۔ بیگمات کے آنسو- خواجہ حسن نظامی
36۔ فسانہ ء آزاد- پنڈت رتن ناتھ سرشار
37۔ باغ و بہار – میر امن
38۔ فسانہ ء عجائب – رجب علی بیگ سرور
39۔ طلسم ہوش رُبا – محمد حسین جاہ و احمد حسین قمر (انتخاب محمد حسن عسکری)
40۔ ناقابلِ فراموش- دیوان سنگھ مفتون
41۔ پسِ دیوارِ زنداں- شورش کاشمیری
42۔ زیرِ لب – صفیہ جان نثار اختر
43۔ احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے دن- مولانا سید مناظر احسن گیلانی
44۔ آپ بیتی- مولانا عبد الماجد دریا آبادی
45۔ محشرِ خیال – سجاد انصاری
46۔ رانی کیتکی کی کہانی – انشاء اللّٰہ خاں انشاء
47۔ داستانِ امیر حمزہ
48۔ آوازِ دوست، لوحِ ایام – مختار مسعود۔ 49۔ بجنگ آمد، بزم آرائیاں- کرنل محمد خان
50۔ نیرنگِ خیال، آبِ حیات – محمد حسین آزاد
51۔ تفہیم القرآن، تنقیحات – سید ابوالاعلیٰ مودودی
52۔ سودیشی ریل – شوکت تھانوی
53۔ یادگارِ غالب، مقدمہ شعر و شاعری – الطاف حسین حالی
54۔ انتخابِ مضامینِ سرسید مرتب انور صدیقی
55۔ کالا پانی- جعفر تھانیسری
56۔ آرائشِ محفل، طوطا کہانی – حیدر بخش حیدری
57۔ طرح دار لونڈی – منشی سجاد حسین لکھنوی
58۔ حریفِ آدم- ڈاکٹر نصیر احمد ناصر
59۔ ہم سفر – حمیدہ اختر حسین رائے پوری
60۔ لیلیٰ کے خطوط- قاضی عبد الغفار
61۔ بزمِ آخر – منشی فیض الدین دہلوی
62۔ مجموعہ منشی پریم چند
63۔ آخری آدمی، چراغوں کا دھواں، علامتوں کا زوال – انتظار حسین
64۔ سرگذشت – عبدالمجید سالک
65۔ چاکی واڑا میں وصال، مکاتیبِ خضر- محمد خالد اختر
66۔ آنگن- خدیجہ مستور
67۔ سب افسانے میرے- ہاجرہ مسرور
68۔ سات سمندر پار- بیگم اختر ریاض الدین
69۔ میری ناتمام محبت- حجاب امتیاز علی
70۔ مضامینِ فلک پیما- عبد العزیز فلک پیما
71۔ کپاس کے پھول- احمد ندیم قاسمی
72۔ اداس نسلیں- عبداللّٰہ حسین
73۔ افکارِ پریشاں – جسٹس ایم آر کیانی
74۔ نقوش شخصیات نمبر
75۔ مضامینِ فلک پیما – عبد العزیز فلک پیما

Monday, 1 May 2017

چکوال اور بھوپال کی روحانی نسبت — عتیق بزدار

عیسوی سن سترہ سو سات میں وادی ء تیراہ کے اورکزئی پشتون نواب دوست محمد خان نے ریاست بھوپال کی نیو ڈالی۔ آگے چل کر اس ریاست نے بیگمات کی حکمرانی اور رجالِ علم و فن کی غایت درجہ قدر دانی کے باعث شہرت پائی۔ آج بھوپال بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا حصہ ہے۔ بھوپال سے قریب سات سو بائیس میل کے ہوائی فاصلے پر پاکستان کا شہر چکوال واقع ہے جسے جموں سے ہجرت کرنے والے مائر راجپوتوں نے آباد کیا تھا۔ پرانے وقتوں میں چکوال علاقہ "دھن” کی انتظامی عملداری کا صدر مقام تھا۔ پاکستان بننے کے بعد چکوال ضلع جہلم کی تحصیل تھا تاآنکہ 1985 میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ چکوال اور بھوپال میں جغرافیائی نسبت تو کوئی بھی نہیں مگر شہر چکوال سے آٹھ میل پرے بھون کا تاریخی قصبہ بھوپال اور چکوال میں روحانی نسبت کا موجب ہے۔
شہر چکوال کے وسط سے کلر کہار کی سمت ایک سڑک پھوٹتی ہے۔ گنجان آبادی چھٹنے پر کیکر کے دو رویہ درخت اس سڑک کو آغوش میں لے لیتے ہیں۔ سال میں دو بار جب یہ سودیشی درخت زرد پھولوں کا پیراہن پہنتے ہیں تو دیدہ ء بینا کے لیے علاقہ "دھن” کی اس سڑک پہ کسی جہان دیگر کے جادہ ء حسیں کا گماں ہوتا ہے۔ کیکروں کی قطاروں کی تان بوہڑ کے تین پرانے پیڑوں پہ ٹوٹتی ہے جن کے داہنی طرف قصبہ بھون کی ایک گلی میں قلندرِ زماں حضرت اسد الرحمٰن قدسی رح کا مزارِ پُر انوار واقع ہے۔ حضرت قدسی رح 1949میں بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے۔ وہ ایک صائم الدہر ولی تھے جنہیں قلندر مہری، قلندر قہری، قلندر دہری کی منازل سے آگے قلندرِ زماں کا رتبہ ملا۔ قدوت السالکین حضرت قدسی رح ایک صاحبِ نصابِ طریقت ولی ہونے کے ساتھ ساتھ زبانِ فارسی کے ایک شیریں مقال شاعر بھی تھے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج بہت کم لوگ حضرتِ قدسی کے مراتب و مقامات سے واقف ہیں۔ شاید ادراکِ عظمت کے لیے عظمت بجائے خود بھی اک لازمہ ہے کہ ایک دور میں علامہ اقبال، مولانا اشرف علی تھانوی، خواجہ حسن نظامی، جگر مراد آبادی، ریاست بھوپال اور ریاست بہاولپور کے نوابین اور مہاراجہ کشن پرساد جیسی نام نامی ہستیاں حضرتِ قدسی کے ارادتمندوں میں شامل تھیں۔ ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا نواب حمید اللّٰہ خان ( ‘ضرب کلیم’ کا انتساب ان کے نام ہے) کے دور میں جب اقبال ریاست بھوپال جایا کرتے تھے تو حضرتِ قدسی رح کے آستانے پر ضرور حاضری دیا کرتے تھے۔ بھوپال کے آستانہ قدسی پر اقبال نے یہ رباعی کہیچشمہ ء فیض تشنہ لب کے لیے
مرکزِ رُشد بہر اہلِ صفا
کوئی سمجھے تو ہے مقامِ قدس
آستانہ جنابِ قدسی رح کا
 (بھوپال- 1936)
حضرتِ قدسی رح کا اسمِ گرامی اسد الرحمٰن تھا۔ مولانا شاہ سلمان پھلواری رح نے آپ کو "حبیب الاولیاء” جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی رح نے آپ کو "ولی الاشرف” کا لقب عطا فرمایا۔ آپ کا شجرہ ء طیبہ امام جعفر صادق رح سے ہوتا ہوا حضرت علی کرم اللّٰہ وجہ ملتا ہے۔ آپ کے جدِ امجد شیخ ابی المکارم سبزوار سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے اور مولانا عبد القدوس گنگوہی رح کے خاندان میں متاہل ہوئے۔ ان سے جو نسل چلی وہ سادات سبزواری کہلائی۔ حضرتِ قدسی کے دادا شاہ نجف علی قلندر، حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رح کے خلیفہ مجاز تھے۔ ان کا نکاح مولانا رشید احمد گنگوہی رح کی خواہر محترمہ سے ہوا جن کے بطن سے شاہ حبیب الرحمٰن قلندر رح تولد ہوئے۔ جنہوں نے علومِ دینیہ کی تعلیم مولانا رشید احمد گنگوہی رح کے زیر سایہ حاصل فرمائی اور اپنے والد گرامی کی طرف سے طریقہ ء قلندریہ میں مجاز قرار پائے۔ شاہ حبیب الرحمٰن قلندر کا عقد علامہ محمد اسحٰق کی دختر سے ہوا جن کے بطن سے مصباح السالکین حضرت اسد الرحمٰن قدسی تولد ہوئے۔
ریاست بھوپال مردم شناسی کی ایک طویل روایت کی امین ہے۔ بیگمات کے دور سے لے کر نواب حمید اللّٰہ خان کے دور تک نطق و فن کی تکریم کے سبب ہندوستان کے طول و عرض سے باکمالانِ علم وفن بھوپال کھنچے چلے آتے تھے۔ اسلم جیراجپوری اپنی کتاب "تاریخ الامت” میں لکھتے ہیں کہ بھوپال کی حیثیت اس وقت کے بغداد الہند کی تھی۔ مختلف وقتوں میں سر راس مسعود، علامہ اقبال، مضطر خیر آبادی، ظہیر الدین دہلوی، عبدالرحمٰن بجنوری، نیاز فتحپوری اور اسلم جیراجپوری بھوپال مقیم رہے۔ اقبال کا ریاست بھوپال سے توسل سر سید احمد خان کے پوتے سر راس مسعود کے طفیل قائم ہوا جو ریاست بھوپال کے وزیرِ تعلیم تھے۔ زاں بعد یہ توسل اقبال اور نواب حمید اللّٰہ خان کے بیچ گہری عقیدت میں تبدیل ہو گیا۔ ادبی اور سیاسی شخصیات سے تعلقات کے علاوہ گوشہ نشیں فقراء اور قلندر مشرب بندگانِ خدا سے اقبال گہری وابستگی رکھتے تھے۔ حضرتِ قدسی رح سے اقبال کا سلسلہ ء مراسلت ریاست بھوپال سے وظیفہ یاب ہونے سے قبل کا ہے۔ 1936 میں جب اقبال بھوپال تشریف لائے تو ان دنوں مصباح السالکین حضرت قدسی رح بھوپال سے چار میل پرے باغِ ثمرستان میں رونق افروز تھے۔ دامن کوہ میں فراوانی ء حسنِ فطرت سے معمور ثمرستان میں متمکن قلندر کی صحبت نے اقبال کے قلبِ لطیف پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بعد ازاں احباب سے حال بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں
"آستانہ میں قدم رکھتے ہی انشراحِ صدر کے ساتھ رجوع الی اللّٰہ کا جذبہ ابھر آیا۔ اور منکشف ہوا کہ بے شک فقراء حق پر انوارِ ربانی کا نزول ہوتا ہے اور لطائف روشن ہوتے ہیں” ( اقتباس از "اقبال اور بھوپال” – صہبا لکھنؤی)
اقبال بلا شبہ روایتی پیر و ملا کے ہاتھ سادہ لوح مسلمان کے استحصال کی شدید مذمت کیا کرتے تھے۔ مگر اس سے کئی احباب غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں معرفت وسلوک کی افادیت سے آگہی نہیں۔ اقبال کی نجی زندگی اور شاعری دونوں میں سوز و سازِ رومی کا اثر جھلکتا ہے۔ معرفتِ کامل کے لیے وہ فقط فلسفہ و منطق و حکمیات کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ عشق کے اکسیرِ اعظم کو عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں مانتے ہیں۔ مرشدِ رومی کے علاوہ اقبال محبوبِ الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ انگلستان روانگی سے قبل محبوبِ الہٰی کے مزار پر حاضری دی اور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے مشہور نظم "التجائے مسافر” کہی. انگلستان میں قیام کے دوران حضرت شاہ سلیمان پھلواروی رح سے مسائل تصوف پر مراسلت جاری رکھی. انگلستان سے واپسی پر اقبال کا گل حسن شاہ قلندر رح سے تعلقِ خاطر پیدا ہوا. اقبال کے توسط سے حضرت گل حسن شاہ قلندر اور اسد الرحمٰن قدسی رح میں تعلق قائم ہوا. گل حسن شاہ قلندر رح نے اپنے مرید والی ء ٹونک نواب حفیظ الدین خان کو حضرتِ قدسی رح سے روحانی تعلق کی تلقین فرمائی. اسی باعث والی ئ ٹونک حضرت قدسی رح کے حلقہ ء ارادت میں شامل ہوئے. ایک محفل میں رباعیاتِ عمر خیام کا تذکرہ ہوا تو ایک صاحب نے سرمد شہید رح کی رباعیات کی مدح و ستائش کی. اقبال رح نے تائید فرمائی کے دونوں ہی بلند پایہ کلام ہیں. پھر اپنی پسندیدگی کا بتاتے ہوئے کہا کہ میں اسد الرحمٰن قدسی رح کی رباعیات کے محاسن اور معنی آفرینی کا مداح ہوں. اور ان کی ایک رباعی تو اسقدر عزیزِ خاطر ہے کہ ہردم زباں پہ جاری رہتی ہے
ہر ذرہ بہ وسعتے بیابانے ہست
ہر گُل بہ لطافتِ گلستانے ہست
در دیدہ ء مردمانِ اہلِ بینش
ہر قطرہ بہ جوشِ گریہ طوفانے ہست
حضرت قدسی رح سالکین کے لیے چراغِ راہ معرفت کا درجہ رکھتے تھے. آپ نے تمام عمر ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہنے کے علاوہ سالکین راہ طریقت کے لیے کئی کتب تحریر فرمائی. جن میں مصطلحات و تصورات پر بحث کے علاوہ اوراد و وظائف کا بیان بطریق سلسلہ فیض رحمانیہ شامل ہے. تصوف کے مروجہ تصور اور اس میں فلسفہ ء یونان کی آمیزش سے جنم لینے والے ملغوبہ کو حضرت نے قطعی طور پر رد کیا ہے. اپنی کتاب "صراط مستقیم” میں لکھتے ہیں کہ جب مسلمانوں کو حکمائے یونان کی دریافت و تحقیقات سے شناسائی ہوئی تو انہوں نے یونانی علوم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کاوشیں شروع کر دیں. اس ذیل میں مسلمانوں نے علمائے یونان کے دو بڑے گروہ مشائین اور اشراقین کا چربہ اتارا. بعض علماء نے مشائین کی روش اختیار کی اور اسلامی معتقدات کو عقلی استدلال سے ثابت کرنے کا منہاج اپنایا. اس منہاج نے علمِ کلام کو جنم دیا. ایک اور دبستان نے اشراقین اصولوں کو اسلامی اعمال پر منطبق کیا. تصوف اس کا ثمرہ ہے. علمِ کلام اور تصوف کے نام پر معروف علوم و عقائد کو رد کرنے کرنے کے بعد حضرتِ قدسی رح نے واضح کیا کہ خالص علوم اسلامیہ کی دو اقسام ہیں. علم شریعت اور علم طریقت. وہ علم شریعت کو علم الیقین اور علمِ طریقت کو عین الیقین لکھتے ہیں. ان کے نزدیک ان دونوں علوم کا ماحصل حق الیقین ہے یعنی تقرب الی اللّٰہ. حضرت قدسی رح نے اپنے لٹریچر میں بارہا اس نکتے پہ زور دیا کہ شریعت پہلا زینہ ہے اور طریقت دوسرا زینہ. الحاصل ان کے ہاں پابندِ شریعت ہوئے بغیر راہ طریقت میں کامیابی کی کوئی صورت نہیں.
حضرت قدسی رح شریعت کی طرح رشد و طریقت کی جملہ ہدایات کے لیے بھی کتاب اللّٰہ کی طرف رجوع کی تلقین کرتے ہیں. قرآن پاک میں آتا ہے
"اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرتے رہو اور اللّہ کی طرف چلنے کا وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرو تاکہ تم مراد تک پہنچو”(المائدہ. ۳۵)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں حضرت قدسی رح اتقاء، وسیلہ اور مجاہدہ کو طریقت کا اصل اصول مانتے ہیں. حضرت قدسی کی تمام عمر انہی اصولوی کی عملی تصویر ہے. جتنی اس جہانِ فانی کی مہلت تھی حضرت نے جسمانی اور روحانی مجاہدے میں صرف فرمائی. سفرِ طریقت کا آغاز حضرت یٰسین شاہ قلندر کے تکیہ پر چلہ سے کیا. چالیس دن مسلسل روزے سے رہے اور یہ آپ کی صائم الدہر کی تربیت کا آغاز تھا. واپسی پر والدہ محترمہ نے کسی ویران مسجد میں خلوت گزین ہو کر عبادت و ریاضت میں مصروف رہنے کی تلقین فرمائی. حضرت تین سال تک بھوپال شہر سے خاصی مسافت پہ واقع باغ راحت افزاء کی ویران مسجد میں متمکن رہے. اس کے بعد حضرت نے والدہ محترمہ کی وصیت پر سیر و سیاحت کا آغاز کیا. اردو کے بلند پایہ انشاء پرداز خواجہ حسن نظامی کی دعوت پر محبوبِ الہٰی خواجہ نظام الدین اولیاء رح کی درگاہ پر حاضر ہوئے. یہاں حضرت نے ۲۰۰ دن قیام کیا، پانچ چِلوں کی تکمیل کے بعد بائیس خواجہ کی چوکھٹ پر حاضری دی. مختلف مقامات کی سیر کے ساتھ سیرِ نفسی کا سلسلہ جاری رہا. اکتساب فیض کی تمنا حضرت قدسی رح کو گنگوہ شریف، کلیر شریف ،پانی پت اور اجمیر شریف لیے پھری جہاں سالک نئے مقامات و مراتب سے فیض یاب ہوا. والدہ محترمہ کی نصیحت پر بارہ سال کی جہد و ریاضت کی تکمیل کے بعد آپ کو والدِ گرامی شاہ حبیب الرحمٰن قلندر رح کا باقاعدہ جانشین مقرر کیا گیا. مختلف اوقات میں حضرت قدسی رح کو پانچ سو بزرگوں نے طریقت کے مختلف سلاسل کی اجازت مرحمت فرمائی جن میں قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، شاذلیہ، ناصریہ، بکتاشیہ، اور عیدروسیہ سلاسل شامل ہیں. اسی طرح حضرت کی مجمع البحرین ذات میں قلندریہ (حقیقت) کے حسب ذیل سلاسل مجتمع ہیں
طریقہ ء عالیہ قلندریہ صدیقیہ
طریقہ عالیہ قلندریہ رحمانیہ
طریقہ قلندریہ حیدریہ فیض رحمانیہ
1949 میں سرزمین پاکستان کو حضرت کے قدوم میمنت لزوم چومنے کا موقع ملا. حضرت نے بھوپال سے ہجرت فرمائی. اور شروع کے دنوں میں لاہور میں حکیم نئیر واسطی کی رہائش گاہ میں مقیم رہے. لاہور سے کوچ کیا تو سندھ میں کیرتھر کے پُرسکون مقام تھانہ بُولا خان قیام کیا. پھر کچھ مدت کوٹڑی کے آستانہ قدسی میں متمکن رہے. مارچ 1950 میں کوٹڑی آستانے پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان حاضری دی. ان دنوں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق پاکستان آنے والے تھے. لیاقت علی خان حضرت کے پرانے نیازمند تھے اور جانتے تھے کہ حضرتِ قدسی رح کے پاس "لوح خضری” ہے جو امام جعفر صادق رح سے نسل در نسل آپ کے خاندان میں چلی آ رہی ہے. لیاقت علی خان ، مصدق کو کوئی ایسا منفرد تحفہ دینا چاہتے تھے جو دونوں ملکوں کے مابین مذہبی اور تہذیبی رشتہ ء اخوت و مؤدت استوار کرے. نوابزادہ کی درخواست پر حضرت نے نقش خضری عنایت کیا جو سونے کی پلیٹ پر منقش کرایا گیا. حضرتِ خضر نے امام جعفر صادق رح کو نقش خضری عنایت کیا تھا اس میں قرآنی آیت "ن والقلم وما یسطرون” کو نشاناتِ خصوصی میں ترتیب دیا گیا ہے. نوابزادہ لیاقت علی خان نے ان الفاظ کے ساتھ تحفہ محمد مصدق کو پیش کیا "ایں لوح خضری است- قبول فرمائید از جانبِ ملک و ملتِ پاکستان”. مصدق نے نقش خضری اپنے ہاتھ میں لیا تو بے ساختہ ایک نعرہ لگایا اور ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی.
سندھ سے ہجرت کے بعد ایک مختصر مدت حضرت رح نے بہاولپور میں گزاری. بہاولپور کے بعد یہ سعادت چکوال کو نصیب ہوئی کہ کلر کہار سے چکوال جاتے ہوئے بمقام "بھون” سڑک کنارے ایک قطعہ زمیں پسند خاطر آیا. جہاں آستانہ قدسی بھون قائم کیا گیا اور اپنے وصال 12 ذوالحج 1397 ہجری تک اسی آستانے میں مقیم رہے. حضرت رح کے وصال کے بعد مولانا کوثر نیازی نے آستانے پر حاضری دی اور لکھا
"سنگِ مرمر کی سادہ اور بغیر کسی چادر اور پھولوں کے ہار کی ایک قبر میں وقت کا وہ عظیم قلندر سویا ہوا تھا جس نے قیام پاکستان سے پہلے کے برصغیر کے عظیم مشاہیر کو اپنا حلقہ بگوس بننے پر مجبور کر دیا تھا. مگر پاکستان بننے کے بعداس نے اللّٰ اللّٰہ کرنے کے لیے پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں کو منتخب کر کے پوری زندگی اس میں بِتا دی، نہ پبلسٹی، نہ کوئی پراپیگنڈا نہ جلسہ نہ جلوس نہ پوسٹر نہ پمفلٹ. پورا صوبہ تو ایک طرف پورا ضلع جہلم بھی نہ جانتا ہو گا کہ طریقت کی دنیا کا کتنا بڑا آدمی قصبہ بھون،چکوال میں قیام پذیر ہے”
کتابیات:-
معارف و طریقت…اسدالرحمٰن قدسی رح
صراط مستقیم…..اسد الرحمٰن قدسی رح
لطائف قدسیہ….اکرام علی، ڈاکٹر
اقبال اور بھوپال..صہبا لکھنوی
اقبال بھوپال میں….عبدالقوی دسنوی
احوال و آثار قلندر زماں شاہزادہ اسد الرحمٰن قدسی رح.. محمود الرحمٰن،ڈاکٹر
Gazetteer of District Jehlum 1904

Sunday, 2 October 2016

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے بانکے

(عتیق بزدار)
حریت کے عالمی استعارے چے گویرا نے کہا تھا کہ اگر آپ کوئی بھی نا انصافی دیکھ کر غصے سے کانپ اٹھتے ہیں تو آپ میرے کامریڈ ہیں۔ کرانتی کاری دلوں میں مؤجزن یہ جذبہ مختلف زمانی و مکانی حالات میں بارہا سر اٹھاتا رہا ہے اور اس کی حالیہ جھلک جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء کی احتجاجی تحریک میں نظر آئی. کامریڈ کنہیا کمار اور کامریڈ شہلا رشید کی زیرِ قیادت اس احتجاجی تحریک نے نہ صرف انڈین سماج کو بھگوے ( Saffron) رنگ میں رنگنے کے بی جے پی اور آر ایس ایس کے بیانیے کے سامنے سپر باندھا  بلکہ سیفرانائزیشن  کے جہل سمندر میں سیاسی وسماجی شعور کا اک جزیرہ آباد کیا ہے. آج جے این یو انڈیا کا ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں انڈسڑیلائزیشن کے بغل بچے نیشنلزم، نریندر مودی کےالٹرا رائیٹ ھندوتوا ڈسکورس اور امبانی ٹاٹا کے کیپٹلزم کی کھچڑی سے برآمد ہونے والے کارپوریٹ ہندوازم کے جمہوری و معاشی مینڈیٹ کو جے این یو کے مٹھی بھر  طلباء نے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔
جے این یو انڈیا کی طلباء سیاست کا ایپی سنٹر ہے. دیگر ملکی وغیر ملکی یونیورسٹیوں کے مثل یہ فقط ڈگریاں فروخت کرنے کی منڈی نہیں، بلکہ فکر و شعور بیدار کرنے والی دانش گاہ کے طور سامنے آئی ہے.  1967 میں اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں بنائی گئی یہ درسگاہ اپنے قیام کے چند ہی سالوں میں انڈیا کی صفِ اول کی درسگاہوں میں شمار ہونے لگی. داخلے کا نظام کچھ اس وضع پر استوار کیا گیا کہ علم و دانش کا یہ پلیٹ فارم فقط مین اسٹریم میں پہلے سے ہی موجود متمول لوگوں تک محدود نہ رہے. اور دورافتادہ علاقوں کے غریب طالبعلموں کو برابر مواقع فراہم کیے جائیں. روزِ اول ہی سے شعوری طور پر ادارے کی فکری منہج ایسے خطوط پر استوار کی گئی کہ سوچ کے دائرے کسی باہر سے مسلط کیے گئے ڈسکورس اور ریاست کے سرکاری بیانیے سے متأثر نہ ہوں. جے این یو کے مضبوط نظریاتی تشخص کی اولیں جھلک تب نظر آئی جب اسی درسگاہ کی بانی اندرا گاندھی نے جے این یو کے طلباء سے خطاب کرنا چاہا مگرطلباء نے انہیں یونیورسٹی حدود میں داخل تک نہ ہونے دیا. طلباء اس امر پہ مُصر تھے کہ اندرا ایمرجنسی کے نفاذ اور دورانِ ایمرجنسی ہونے والے سرکاری جرائم پر قوم سے معافی مانگیں.
سوال کرنے کی صحتمند روایت جے این یو کی فضاء میں رچی بسی ہے. ہوسٹل، میس اور ڈھابوں پر مکالمے اور مباحثے ہوتے ہیں کہ انڈین سماج کی پرداخت کن سماجی اور سیاسی اصولوں پر ہو. گو  جامعہ میں  کمیونسٹ اور سوشلسٹ سوچ کی حامل جماعتوں کا غلبہ رہا ہے مگر کسی بھی نظریئے کو تقدس اور حتمیت کا غلاف چڑھانے کی روایت نہیں. ڈین کی زیرِ سرپرستی قائم جے این یو سٹوڈنٹس یونین کی صورت جے این یو کے طلباء کو ایک ایسا تنظیمی ڈھانچہ میسر ہے جو سیاسی وسماجی شعور اور فکر و تعمق کو جلا بخشتا ہے. جے این یو سٹوڈنٹ یونین  فکری و نظریاتی تنوع کی جیتی جاگتی تصویر ہے. یونین کے صدر کامریڈ کنہیا کمار  آل انڈیاسٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا طلباء ونگ ہے. نائب صدر کامریڈ شہلا رشید اور جنرل سیکرٹری راما ناگا کا تعلق آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن سے ہے جو  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ کا طلباء دھڑا ہے. جوائنٹ سیکرٹری انورابھ شرما اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کا طلباء دھڑا ہے.  اس سٹوڈنٹ یونین نے جامعہ میں اختلافِ رائے،  آزادئ اظہار اور بوقلمونی ء افکار کی اک نئی طرح ڈالی ہے.  یہاں “باپو” اور بھارت ماتا سے زیادہ بابا صاحب امبید کر،  بھگت سنگھ اور چارو ماجومدار سے عقیدت برتی جاتی ہے. نریندر مودی اور رتن ٹاٹا کی کوئی نہیں سنتا مگر گجرات کے ایک غریب لڑکے کنہیا کمار اور کشمیر کی ایک مسلمان لڑکی شہلا رشید کی فقط ایک کال پر ھندو مسلم، سکرٹ بلاؤز  و شلوار قمیض، باریش و کلین شیو کی تفریق بھلا کر سب لبیک کہتے ہیں.  کسی قسم کی تقدیسوں کی اسیری کو جھٹلاتے ان سچے سجیلے جیالوں کی جرأتیں ریاست کی قوتِ قاہرہ  اور ھندوتوا کے سیفرانائزیشن ایجنڈے کے مقابل ڈٹی ہیں۔
نو فروری 2016 کو جے این یو سٹوڈنٹس یونین نےافضل گرو کی ناحق پھانسی کے خلاف ایک کنوینشن کا انعقاد کیا. حسبِ توقع نازک طبع ریاست کو ان طلباء کے نعرے ناگوارِ خاطر گزرے.1860 کے استعماری قانون کی سیڈیشن کی شق استعمال کرتے ہوئے  جے این یو سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا.  کنہیا اور ان کے کامریڈز کو جھوٹا دوش دیا گیا کہ انہوں نے اینٹی نیشنل نعرے لگائے. ان گرفتاریوں کا واضح مقصد جے این یو میں ریاستی بیانیے کے خلاف بڑھتی ہوئی فکری مزاحمت کو دبانا تھا. طلباء کی گرفتاریوں نے ایک احتجاجی تحریک کو جنم دیا. جے این یو کے بانکوں نے اپنی آزادی ء اظہار پر مودی سرکار کی اس یلغار کے خلاف ڈٹ جانے کی ٹھان لی. یونیورسٹی کا ہر کونا ہر قریہ انقلاب اور لال سلام کے نعروں سے گونج اٹھا. اساتذہ بھی اپنے ان رشید شاگردوں کی صفوں میں آن شامل ہوئے. ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ ایک طرف اور دوسری جانب علم و آگہی سے منور یہ سچے سجیلے جواں  ڈٹ گئے. صدر کے پابندِ سلاسل ہونے پر سٹوڈنٹ یونین کی نائب صدر شہلا رشید نے احتجاجی تحریک کی باگیں سنبھال لیں۔
سری نگر  کی شعلہ بیاں شہلا رشید کی جوشیلی تقریروں کے شعلہ ء گرمی نژاد نے جے این یو تحریک میں حرارت اور توانائی پھونکی. ریاستی میڈیا کے ارناب گوسوامی جییسے جغادریوں کے بھرپور پراپیگنڈے کے باوجود جے این یو کی آواز دبائی نہ جا سکی.  ریاست کو فکری و نظریاتی مورچے پر شکست یقینی نظر آئی تو ریاستی قوتِ قاہرہ وردی پوش اداروں کی صورت کیمپس میں در آئی. یونیورسٹی کیمپس مثل اک جیل کے لگنے لگا. ایسے میں ایک نہتی لڑکی نے  جاسوسی کیمروں اور بندوقوں کے مہیب سائے تلے ریاستی جبر اور وطنیت کے جھوٹے فسار تلے پلتی ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا تو جے این یو کے جیالوں نے اسے مایوس نہیں کیا. 14 فروری کو شہلا کی ایک کال پہ ہزاروں طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس کی جانب مارچ کیا. 18 فروری کو یہ طوفان ٹھاٹیں مارتا جے این یو کی در و دیوار پار کر کے دلی کی سڑکوں پہ اتر آیا.  جلوسوں اور ریلیوں کے علاوہ شہلا نے تحریک کا دانشورانہ مورچہ بھی بخوبی سنبھالا. کامریڈ شہلا کی تقریریں ان کے سیاسی و سماجی شعور کی بلند پروازی کا پتہ دیتی ہیں.جب جب کھوکھلے نیشنلزم کے کرتبی دانشوروں نے آزادی ء افکار پر قدغن لگانا چاہی اور ان پُر عزم جوانوں کی سرکشی ء خیال کو غداری پہ محمول کرنا چاہا. تو شہلا نے ہر فورم پر جے این یو کا مقدمہ لڑا. مذہب کے سیفرانی لبادے میں چھپے سرمایہ داروں، ان کے ہمنوا سیاستدانوں اور چیختے چھنگھاڑتے میڈیائی مداریوں کو سرِ عام بے نقاب کیا۔
میں ظالموں کے خلاف نسلوں کی نفرتیں عام کر کے چھوڑوں گا
میں ساری دنیا میں ان کو بدنام کر کے چھوڑوں گا
سیاسی و سماجی اپج اور ادبی و شعری ذوق  سے مرصع شہلا کی تقریروں میں فیض اور فہمیدہ ریاض کے انقلابی شعروں اور امبیدکر و بھگت سنگھ کی نظریات کی بازگشت سنائی دیتی ہیں. ان کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ نریندر مودی کا الٹرا رائیٹ نیشنلزم انڈین سماج کے لئے نا قابل قبول ہے. کاسٹ سسٹم کی تفریق ہو یا اقلیتوں سے ناروا سلوک، شہلا رشید کنہیا کمار اور ان کے کامریڈز نے جرأتمندی سے ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی.
شوریدہ سر شاعر اور فلسفی جون ایلیا ایک جگہ لکھتے ہیں “سوچنا کل بھی جرم تھا اور آج بھی جرم ہے. محسوس کرنے میں کل بھی ضرر تھا اور آج بھی ضرر ہے پس کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سوچنے اور محسوس کرنے کا یہ شیوہ اس دنیا کی ساخت کے یکسر خلاف ہے”.  جے این یو کے جیالوں کا جرم بھی مروجہ فکر سے ہٹ کر سوچنا اور محسوس کرنا ہے. ان سچے سجیلے جوانوں کے قلوب تپاں سرکشی ء خیال سے معمور ہیں، یہ بانکے جواں ہمہ لمحہ انسان دوستی  کا دم بھرتے ہیں، علم و آگہی سے اپنے نفس کی تطہیر کرتے ہیں،  سماج اور جمہور کے طے شدہ ضابطوں کو ازسرِ نو سوچنے پہ مصر ہیں، ان کے دلوں کی فصیلیں ظفر مند ارادوں سے بھری ہیں، ایسے  لوگ لامحالہ ایک جبری یقین مسلط کرنے والی متشدد کارپوریٹ ریاست کے لیے خطرہ ہیں. جب دادری میں محمد اخلاق گئو ماتا کے ذبیحے کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں بیدردی سے مارا جاتا ہے تو ریاست کا انصاف نہیں جاگتا مگر جے این یو کے بام و سقف آزادی اور انقلاب کے نعروں سے گونجتے ہیں. اڑیسہ میں “ادی واسیوں” کو اس لیے اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جاتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں کھربوں روپے کا بکسائیٹ کھود نکالنا چاہتی ہیں.تب بھی جے این یو بولتا ہے. تعلیمی ادارے غریب طالبعملوں کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جے این یو انہیں آڑے ھاتھوں لیتا ہے. القصہ جے این یو ایک  استبدانہ معاشرے میں مزاحمت کی دیوار بن کر ابھرا ہے. ایک ایسی دیوار جس کے سنگ و خشت افکار کی رنگا رنگی کے باعث بہم ہیں.
جب سے نریندر مودی راج سنگھاسن پہ بیٹھے ہیں انڈین سیکولر ازم کا پرانا بیانیہ کہیں پسِ منظر میں گُھٹ مرا اور اب اطراف و جوانب میں کارپوریٹ ھندو ازم کی بنسی بجتی ہے. منافع کی بڑھوتری کے یک نکاتی ایجنڈے سے عبارت سرمایے کا عالمی نظام اخلاقیات کے آفاقی تصور کی ہمیشہ سے نفی کرتا رہا ہے. ہر چند اس نظام میں ایک طرزِ خاص پہ استوار سرمایہ دارانہ نظم اور معاشی ضوابط کا مبسوط نظام تو موجود ہے مگر ایک معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پہ استواری انہیں موافق نہیں. اس نظام میں بدلتے ہوئے حالات میں منافعے کی بڑھوتری کے لیے ایک لچک رکھی گئی ہے. اور دانستہ طور پر عالمگیر تصورِ اخلاقیات سے پہلو تہی برتی گئی ہے کیونکہ آفاقی تصورِ اخلاقیات میں اٹل اقدار و ضوابط موجود ہیں. اور ان اٹل ضوابط کی موجودگی میں سرمایہ دارانہ نظام کو بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ رنگ بدلنے کی لچک میسر نہیں. اسی نظام کی چھتر چھایا تلے گجرات کے خون آشام بھیڑیئے نریندر مودی کو ۲۰۰۵ تک امریکہ میں داخلے کی اجازت نہ تھی. مگر جب یہ امر مسلم ہو چلا کہ مودی جی ھندوتوا کے بھگوے جھنڈے تلے ڈیڑھ بلین  لوگوں کی تجارتی منڈی کے سربراہ بننے کو ہیں. تو ایسی تمام پابندیاں ہوا میں اڑا دی گئیں.   ۲۰۱۴  میں وہی مودی میڈیسن اسکوائر میں خطاب کرتے پائے جاتے ہیں. کیمروں کی آنکھیں چندھیاتی روشنی میں  باراک اوباما سے بغلگیر ہوتے ہیں. انڈین سماج میں سرمایہ دارانہ مفادات کو فروغ دینے کیلئے جمہوریت کو مذہب کا تڑکا لگایا گیا. نتیجتاً کارپوریٹ ھندوازم اپنی زعفرانی ضو فشانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوا. امبانی ٹاٹا اور دیگر بڑی مچھلیوں نے مودی سرکار کی راہ ہموار کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا. الٹرا رائیٹ سیوکوں نےمودی جی کی الیکشن مہم میں نعرہ لگایا “اگر آپ اصلی ہندو ہیں تو نریندر مودی کو ووٹ دیں. ایسے نعروں اور ان سے وابستہ بیانیے پہ شہلا رشید نے اپنی ایک تقریر میں پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کے شعروں سے یوں چوٹ لگائی
تم بالکل ہم جیسے نکلے ،
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے،
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے ؟
سارے الٹے کاج کرو گے ؟
اپنا چمن تاراج کرو گے ؟
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا ، پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے ، تم بھی کرو گے فتویٰ جاری
سوچنا اور سوال اٹھاناایک صحتمند ذہن کا عملیہ ہے. کامریڈ کنہیا کمار کہتے ہیں
“ہمارا سماج جو کل سوچے گا، جے این یو کو آج اس کی فکر ہے”
“انڈین نیشنلزم کو ایک دھرم یا ایک ذات پہ استوار نہیں کیا جا سکتا”
“ہم سماج میں بہتری کا سنگھرش کررہے ہیں.ہم بھارتی آئین کے عملی نفاذ کی جنگ لڑ رہے ہیں. ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں”
کامریڈ شہلا کہتی ہیں
“ایک قوم کہلانے کیلئے یہ لازمہء تہذیب ہے کہ مکالمے اور مباحثے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے. اگر آپ کو عوام کی چنتا ہے تو ان کے سوال اٹھانے کے حق کو محفوظ بنانا ہو گا” “ہم کسی کو جیل بھیجنے کے حق میں نہیں. نہ ہی ان لوگوں کے جو گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو شہید مانتے ہیں نہ ہی ان لوگوں کے جو افضل گورو کو شہید مانتے ہیں. ہر دو قبیل کے لوگوں کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کی آزادی ہونی چاہیے. ہم بھگت سنگھ کے پروگریسو نیشنلزم کو مانتے ہیں اور آر ایس ایس کے بھگوا جھنڈا لہراتے متشدد نیشنلزم کو رد کرتے ہیں۔”
شہلا، کنہیا اور ان کے ساتھیوں کی یہ جرأتِ گفتار اور فکری تگ و تاز مودی سرکار کو ایک آنکھ نہیں بھاتی. بس اسی پاداش کنہیا کمار، عمر خالد، انیربان اور اشتوش کمار کو حراست میں لیا گیا. الزام دیا گیا کہ انہوں نے بھارت مخالف نعرے لگا کر غداری کا ارتکاب کیا. ان کو پس دیوار زنداں بھیجنے کو 1860 کے فرنگی قانون کا سہارا لیا گیا. ریاست کو گمان تھا کہ زندان کی کٹھنائیاں ان آتشیں خیال جوانوں کی آرزوؤں کا خون کر ڈالیں گی. ریاست شاید اس خوش فہمی میں مبتلا  تھی کہ ان سرکردہ رہنماؤں کو پابندِ سلاسل دیکھ کر جے این یو کے بانکے حوصلہ ہار دیں گے مگر
رہیں نہ رند یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
گرفتاریوں نے تحریک کو اک نئی اٹھان دی. ساتھیوں کی رہائی کے لیے طلباء کا طوفان جامعہ کے در و دیوار پار کر کے دلی کی سڑکوں پر امنڈ آیا. ہزاروں طلباء نے شہلا کی قیادت میں پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا اور ریاست کے آمرانہ رویے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا.   دنیا بھر کے دانشوروں نے انڈین گورنمنٹ کے اس سامراجی اقدام کی سخت لفظوں میں مذمت کی. نامور دانشور ناؤم چومسکی، نوبل لاریٹ اورحان پاموک سمیت دنیا بھر سے نواسی دانشوروں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں استعماری قانون کے تحت طلباء کی غداری کے الزام میں گرفتاری کو انڈین حکومت کا آمرانہ اقدام قرار دیا. اور استعماری قانون کے  اطلاق پر گہری تشویش کا اظہار کیا. آخر کار دومارچ کو کنہیا اور ان کے ساتھیوں کو عبوری ضمانت پر رہا کر دیا گیا. انقلاب، آزادی اور لال سلام کے نعروں کی گونج میں کامریڈ کنہیا اور ساتھیوں کا والہانہ استقبال کیا گیا. پورا جے این یو کچھ یوں نعرہ زن ہوا
کامریڈ کنہیا کو لال سلام لال سلام
کامریڈ عمر کو لال سلام لال سلام
ہم لے کے رہیں آزادی
فاسی واد (فاشزم) سے آزادی
سنگھ واد سے آزادی
جو تم نہ دو گے
تو لڑ کے لیں گے آزادی
او لال و لال و لال سلام
پورے جے این یو کو لال سلام

Friday, 19 August 2016

ایک کوہ پیما کا سندیسہ محبت

عتیق بزدار
سطحِ سمندر سے سولہ ہزار فٹ بلند اور ستتر مربع کلومیٹر پر محیط ‘سنو لیک’ عام جھیلوں کے کینڈے کی جھیل نہیں بلکہ جھیل کے عمومی تصور سے ماہیت اور وسعت، دونوں اعتبار سے قدرے مختلف ہے. یہ ناپیدا کنارجھیل قراقرم کے بدن پر خلط ملط ہوتے بیافو اور ہسپر گلیشیر کے بیچوں بیچوں برف کا ایک بے انت سمندر ہے. شاید تخیلِ ڈارون سے بھی قبل کے زمانوں میں بیافو Biafo اور ہسپر Hispar کے باکرہ برفیلے بدن ٹکرائے ہوں اور اُن کے اتصال نے اس نقرئی جھیل کو جنم دیا ہو جس کا حسن اس کی وسعت اور  آنکھیں چندھیا دینے والی لشک سے عبارت ہے. مثرگاں چاہے جتنی کھلیں اس کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں کہ یہ پولر ریجن سے باہر دنیا کا سب سے طویل برفانی بیسن ہے. مارٹن کان وے پہلا بدیسی سیاح تھا جس نے۱۸۹۲ میں سنو لیک کے برفیلے بدن پہ قدم رکھا. تاحدِ نگاہ برفیلی وسعتوں کو دیکھ کر مارٹن نے کہا ” دنیا بھر کی سیاحت میں ایسا سحر انگیز برفانی نظارہ ان آنکھوں کو پہلے کبھی نصیب ہوا تھا نہ آئندہ کبھی ممکن ہے”. اسی مارٹن نے ہی پہلی بار اس برفانی ویرانے کے لئے “سنو لیک’ کا نام استعمال کیا. وگرنہ  مقامی بولی میں  اسے “لکپے لاء”  کہتے ہیں.
محبوب کی زُلفِ دوتا کی طرح بل کھاتی سکردو سے ایک جیپ روڈ وادی ء شگر کے مٹیالے پہاڑوں اور بیچ کہستان نمودار ہونے والے ہائی آلٹی چیوڈ Altitude ریگزاروں سے گزر کر آخری انسانی آبادی “اسکولے” گاؤں جاتی ہے. سطوت اور جمال کے پیکر قراقرم کے مقدسکہستانی سلسلوں کی سیر دیکھنی ہو یا آکاش کو چومتی شاہ گوری K2) (اور اس کی ہمسائی چوٹیوں کو سر کرنا ہو اسکولےکی چوکھٹ چومنا لازمہء سیر بینی ہے.سکردو سے اسکولے کی سڑک بھی ایک دلچسپ سفری تجربہ ہے.  ابتلائے سفر سے مفر نہیں مگر ساتھ میں ہزار رنگ ہمسفر رہتے ہیں. پہاڑی ڈھلانوں سے چپکے لہلہاتےکھیت جو کہیں سبز کہیں گلابی ہو جاتے ہیں. یکبارگی یہ کھیت ناپید ہو جاتے ہیں تو کچھ دیر تکلامکان اور گوبی جیسا صحرا رفیقِ سفر رہتا ہے. صحرا ساتھ چھوڑتا ہے تو جلترنگ سماں چو طرف نمایاں ہوتا ہے. گہرائی میں گدلے پانیوں کا دریا. کناروں پر ڈھلان در ڈھلان کھیت اور دور برفپوش پربتوں کے برفیلے بدنوں پہ ڈورے ڈالتی آہوئے فلک کی شرارتی کرنیں.  اور رنگ کی اس بارش میں بھیگتی پھرپھرر کرتی سکردو کی سخت جان نیلی پیلی جیپیں گھومتی پھرتی ہیں. تارڑ صاحب ان جیپوں کو کوہ پیماؤں کی نخریلی بلیاں لکھتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہ آئی کہ اسکولے روڈ پہ سفرِ مسلسل کا کرب جھیلنے میں نخرا کہاں ہے. اسکولے کی چوکھٹ پہئیے کے پھیر کا اتمام ہے اور اس کے بعد کے رستے سہارنا “کارِ موٹر” نہیں. گر آگے کا قصد ہے تو پاؤں کے بل جانا ہے. اسکولےسے کچھ آگے چل کر سنو لیک کا رستہ کے ٹو اوربلتورو کے رستے سے مفارقت لیتا ہے اور شمال مغرب میں بیافو کی سمت مُڑ جاتاہے.
بیافو سب جانتے ہیں کہ بازیچہء اطفال ہرگز نہیں. اسکولے گاؤں سے چار کلومیٹر پرے بیافو کا برف سمندر شروع ہوتا ہے جو بیالیس میل تک قراقرم کے رگ و پے میں سرایت کرتا ہے. اسکولے سے نکلتے ہی پتھروں میں سر دھنتے پُر شور برالڈو دریا کا خرام کوہ نوردوں کو سلامی دیتا ہے. آگے ایک بنجر ویران میدان آتا ہے جسے مقامی لوگ قیصر کا پولو گراؤنڈ کہتے ہیں.  اس کے بیچوں بیچ کوہ نوردوں کے پیروں سے “کُوٹا” ہوا رستہ ہے جو آگے بلتورو جاتا ہے اور بایاں طرف بیافو کی پگڈنڈی مڑتی ہے. ایک درہ نما پہاڑی کے پار گلیشرز کا باوا آدم بیافو شروع ہوتا ہے. جو آگے ہیسپر سے مل کر پولر ریجن سے باہر دنیا کا طویل ترین پہاڑی راستہ ترتیب دیتا ہے. یہی راستہ بلتستان کو نگر سے ملاتا ہے. اور اس راستے کے کناروں پر “لاٹوک” Latok کی فلک شگاف چوٹیاں پہرہ دیتی ہیں. راستہ طویل اور کٹھن ہے مگر سنولیک جیسی محبوبہ نے وصال کے لئے “انہی راستوں پہ چل کے آنے” کی فرمائش لازم رکھی ہے.
اسکولے سے “نملا” قریب چھ سات گھنٹے کا رستہ ہے. طویل برف زار ہے جس کے سفید بدن میں لاتعداد پتھر اور سنگریزے پیوست ہیں. پتھروں پہ چلنا بھی عجب صعوبت ہے “گوڈے گِٹے”ہر بار اِک نئے زاوئیے پہ وزن سہارتے ہیں. اور ہر قدم پہ  ایک ٹیس جسم کے مضراب پہ درد کی نئی لَے چھیڑتی ہے. “نملا’ نام تو پہلی سماعت پر کسی سیمیں بدن زہد شکن حسینہ کا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً چند جھاڑیوں، ایک ندی اور زمین کے چھوٹے سے ہموار ٹکڑے پر مشتمل ایک کیمپ سائیٹ ہے. نملا دیوی کے  رن چھو کے نکلو تو آگے کا رستہ برفانی دراڑوں crevasses سے پِٹا پڑا ہے جو کہ گرم سرد موسموں میں گلیشئرز کی انگڑائیوں سے پیدا ہوتی ہیں. اُس کے پار شمال میں  لاٹوک ٹاور Latoke نظر آتے ہیں. لاٹوک اول7145 میٹر، لاٹوک دوئم  میٹر7108  اور لاٹوک سوئم6959  میٹر بلند ہے. جنوب میں بخورداس Bakhor Das کی ۔مخروطی چوٹی اِک شاہانہ تمکنت سے براجمان ہے
نملا سے اگلا پڑاؤ 5355 میٹر بلند ‘ مانگو براک’ کے سائے تلے ایستادہ مانگو کیمپ سائیٹ ہے. ‘مانگو’ برف زاروں کے بیچوں بیچ گھاس کا اِک ہرا سمندر ہے جہاں یاک چرتے نظر آتے ہیں. چرواہے اپنے مویشی یہاں چرنے کو چھوڑ کر آگے “پنما”   Panmah  کو چلے جاتے ہیں.  قریب ہی ‘مانگو براک’ سے اترتی سنگِ راہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی  دی بہتی ہے. اور مانگو جھیل کے نام سے ایک مختصر شفاف جھیل تھوڑی بلندی پر واقع ہے.  
مانگو سے “بینتھا” کیمپ سائیٹ کا سفر چار سے چھ گھنٹے پر محیط ہے. یہ کیمپ سائیٹ سطح سمندر سے 4020 میٹر بلند ہے. سن ۱۸۹۲ میں مارٹن کانوے Martin Conway) نے یہاں قیام کیا تھا اور اُس نسبت سے اسے ‘کانوے کیمپ” بھی کہا جاتا ہے. کیمپ سائیٹ سے کچھ فاصلے پر ‘بینتھا لکپر’ گلیشئر واقع ہے جو لٹوک کی پر ہیبت اونچائیوں سے اترتا ہے. مذکورہ گلیشیر سے محتاط فاصلہ رکھتے ہوئے کامریڈ لوگ آگے بڑھتے ہیں.  بینتھا سے آگے کے رستے کا آغاز تو اچھا ہے. چند مختصر جھیلیں اور بید کی چند جھاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں. مگر پھر رستہ پرانی ڈگر پہ لوٹ آتا وہی پتھر وہی برفانی دراڑیں اور ان کے ستم گزیدہ کوہ نوردوں کے مظلوم پاؤں. بیافو پہاڑوں میں ایستادہ برفانی اژدھے کی طرح بل کھاتا رہتا ہے جنوب میں “سوکھا درہ”  ہے. سرائیکی میں لفظ “سوکھا” آسان کے معنوں میں مستعمل ہے. لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے. سوکھا درہ درحقیقت سرائیکی والا “اوکھا” درہ ہے.  سوکھا درہ پہلی بار ٹِل مین Tilman نے 1937 میں عبور کیا. یاد رہے کہ یہ وہی ٹل مین ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوبار دیومالائی برفانی انسان “یے ٹی” Yeti کو سنو لیک کے برف زار میں چہل قدمی کرتےدیکھا اور ایک میل تک اُسکا تعاقب کیا. اُس کے ہمسفر نیپالی شرپا نے یے ٹی کے نقشِ پا دیکھ کر کہا کہ یہ نشان مارخور کھانے والے بڑے یے ٹی سے قطعاً نہیں ملتے اور آدم خور چھوٹے یےٹی سے ملتے ہیں. اس پر ٹل مین نے کہا ازبسکہ یہاں انسانوں کا گزر برسہا برس سے نہیں ہوا تو طوالتِ قحط الرجال کے سبب یے ٹی کی بھوک زوروں پر ہو گی.
بینتھا سے چلو تو ایک دو گھنٹے  بعد خطِ جادہ کچھ ہموار ہوتا ہے. تسکینِ خاطر کو بدن دریدہ مسافر پر فطرت کچھ مہربان ہوتی ہے اور برفانی دراڑوں سے آخر کار خلاصی ملتی ہے. آگے سنو لیک تک کے راستے کو مقامی پورٹر ازراہِ تفنن “موٹروے” کہتے ہیں. اگلا پڑاؤ مارفو غورو کا ہے. مقامی زبان میں “مارفو” سُرخ” اور “غورو” چٹانی علاقے کو کہا جاتا ہے. یہاں سفید گلیشیرز کے بلوریں بدن پر ہمسائے پہاڑوں کی شکست و ریخت سے آن گرنے والے پتھر پیوست ہو جاتے ہیں. لطافت اور کثافت کا اک ملاپ ہوتا ہے نتیجتاً برف کی سفید ردا پہ سرخ و سفید فطرتی کشیدہ کاری کے نمونے نمودار ہوتے ہیں. بس ایسا ہی ایک سنگلاخ نمونہ مارفو غورو ہے. یہاں پہنچ کر بھی گائیڈ ہنوز سنو لیک دور است کی صدا لگاتا ہے. مسافر “سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی” کی تحریک پہ چلتا ہے. برف کے عجائب کدے کا پینڈا مزید ماپو تو تبسمِ گلیشیر سے چھوٹی چھوٹی نیلگوں جھیلیں نمایاں ہوتی ہیں. سماں بدلتا ہے، مارفوغورو کا سُرخ منظر “کارفو غورو” کی بھوری چٹانوں میں تبدیل ہوتا ہے.  خطِ جادہ کی تنگی کو فراخ ملتا ہے  کارفو غورو میں کیمپ سائیٹ کے گردا گرد وسیع برف زار ہے. قریب قریب کوئی پہاڑی ہے نہ ہی آدم خور برفانی دراڑیں. کامریڈ لوگ اپنے لال پیلے خیموں کی طنابیں گاڑتے ہیں امید کرتے ہیں کہ کارفوغوور کی آخری کہستانی چوکھٹ چوم لی ہے تو سپنوں کی راجکماری “سنو لیک” سے معانقہ اب دائرہ ء ممکنات میں ہے.
دلِ من مسافرِ من! لمبا جو ابتلاء کا سفر  وہ ختم ہونے کو ہے.اب شادمانی کا لمحہ ہے ، شاد کامی کا سمے ہے.  پسِ منظر کچھ پستہ قامت پہاڑیاں ہیں اور سامنے سنو لیک برف کی تہہ در تہہ رداؤں میں ملفوف پڑی ہے. آہوئے زریں کی کرنیں سنو لیک کے روئے تاباں سے ٹکرا کے آتی ہیں تو ہمسفر کامریڈوں کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ جاتی ہیں. جھیلوں کی خوبصورتی کا مروجہ پیمانہ کار فرما ہو تو یہ کرومبر اور رتی گلی جیسی جھیل ہرگز نہیں کہ یہاں پانی ہی مفقود ہے. یہاں تو فطرت کی تونگری برف کی بہتات میں متصور ہو چکی ہے. ایک ریگزار ہے جس میں ریت نہیں برف ہے. ایک گلزار ہے جس میں لالہ و گُل نہیں برف ہے. برف ہے جو بے انتہا ہے اور بے پایاں ہے. آنکھ تھک کر لوٹ آتی ہے وسعت کو مگر اتمام نہیں.بلا شبہ یہ دنیا کی تمام جھیلوں سے منفرد جھیل ہے.زمین ایک طرف آکاش کی نیلی سب جھیلیں بھی اس کے سامنے پانی بھرتی نظر آتی ہیں.  نظر جو جنوب مشرق کو جائے تو “سم گانگ” کا گلیشیر اترتا نظر آتا ہے جو نیچے آ کے بیافو سے بغل گیر ہوتا ہے. مشرق کو درہ “لکپے لاء” ہے جہاں سے کرہ ء ارض کے بلند ترین گاؤں شمشال کا رستہ نکلتا ہے.  شمال مغرب میں “ہیسپر لاء” ہے جس کے پار “ھنزہ نگر” دیس ہے. شمالی سمت سب دروں سے پُر خطر درہ “خوردوپن لاء” جہاں جانے کا خطرہ جیف ہوبن (Jeff Hobin) جیسے  جفا کش اور ماہر  کوہ پیما ہی لے سکتے ہیں. اگلی بار جو چلے تو کامریڈ لوگ بھی جیف ہوبن کے نقشِ پا پر چلیں گے اور خوردوپن لاء کی کٹھنائیوں کے پار اتریں گے.
بھلے وقتوں میں اقبالِ لہوری کارِ آشیاں بندی کو ذلت کہہ گزرے ہیں. یار لوگ شاید انہی کی باتوں کی تحریک پرکوہ و بیاباں میں گزر اوقات کو آساں سمجھ بیٹھتے ہیں. اب انہیں کون بتلائے کہ قراقرم سینہ کاوی مانگتا ہے اور قدم قدم پہ گلیشیر منہ کھولے بندہ نگلنے کو تیار بیٹھے ہیں. پتھریلے برفیلے رستے جسم و جاں کو فگار کرنے کے منتظر ہیں. القصہ، بلائیں بہت ہیں مگر رستے راہی کھینچ ہی لیتے ہیں. ان راستوں کی نبض آوارہ مزاجوں کے دم سے چلتی ہے. کوئی راہ نورد نہ ہو تو راستے بھی زمانوں کی دھول تلے دم توڑ دیتے ہیں. شاید ان راستوں کی زندگی مقصود ہوتی ہے یا شاید سنو لیک جیسی محبوبہ کا روئے تاباں دیکھنے کا چاؤ، ہر سال چند البیلے راہی یہاں کا قصد ضرور کرتے ہیں. ِ جادہ جتنا بھی درپے آزار ہو.  سر ہتھیلی پہ رکھے سرمستوں کی تمنا کی وسعت کا مقابل ٹھہر نہیں پاتا.

“قافلے ریت ہوئے دشتِ جنوں میں کتنے
پھر بھی آوارہ مزاجوں کا سفر جاری ہے”

Wednesday, 1 June 2016

صالح ظافر سے روایت ہے


سلطنتِ انگلیشیہ کے دارالخلافے لندن میں وزیرِ اعظم کا آپر یشن کرنے والے عیسائی ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن سے ایک روز قبل انہیں خواب میں ایک بابے کی زیارت ہوئی جن کی خشخشی داڑھی میں دہن سے ٹپکنے والے حلیم کے قطرے موتیوں کی طرح پرؤے ہوئے تھے. بابے نے تاکید کی کہ تمہیں قدرت نے بہت بڑی سعادت کے لیے چُن لیا ہے اور تم کل ایک ایسے شخص کے پریشاں قلب کی شریانیں سلجھاؤ گے جس کے اخلاقِ عالیہ کے سبب موسم اپنے تیور بدلتے ہیں. جس کی آمد پہ سموم صباء کی سی ہو جاتی ہے اور بدمزاج ہوائی بگولے دھیمی دھیمی پون بن جاتے ہیں. پس تم پر لازم ہے کہ آپریشن سے پہلے کسی جاوید چودھری سے طہارت کے اطوار اور وضو کے فرائض سمجھ لو. جراہی کے آلات تھامنے سے پہلے اور اس معتبر ہستی کے جسم کو چھونے سے پہلے تمہارا با وضو ہونا لازم ہے.
فرنگی ڈاکٹر نے بتایا اگلے روز جیسے ہی آپریشن شروع ہوا آپریشن تھیٹر کی کھڑکی سے نسیم بحری نے اٹکھیلیاں شروع کر دیں. ہم نے احتیاطاً کھڑکیوں کے پٹ بھیڑ دئیے. جیسے ہی سینہ چاک کیا گیا باہر گھنگھور گھٹائیں چھا گئیں. خلیج بنگال کی مون سون اپنا ازلی رستہ چھوڑ کے لندن کو دوڑی چلی آئی. باہر سے اندر آئی نرس نے بتایا کہ باہر ہسپتال کے لان میں دھنک رنگ تتلیاں اتر رہی ہیں.سائبیریا کی کونجیں ڈار در ڈار ہسپتال کا طواف کر رہی ہیں. پھر کیا دیکھتا ہوں کہ مریض کا سینہ چاک ہے مگر رخ ِ انور کی تابانی بڑھتی جا رہی ہے اور مسکراہٹیں بکھرتی جا رہی ہیں. غیبی مدد کے طفیل طبیبوں کے ہاتھ کسی خودکار روبوٹ کی طرح چلے اور گرافٹنگ چند لمحوں میں مکمل ہو گئی. 
جب کامیاب آپریشن کی خبر انٹنیشنل میڈیا نے بریک کی تو وال سٹریٹ کے اقتصادی اعشاریے چند لمحوں میں بعد از گریٹ ڈپریشن سے اب تک کے ریکارڈ توڑ گئے. شام سے ابو بکر بغدادی اور قندھار سے ھیبت اللّہ اخونزادہ نے نواز شریف کے ھاتھ پر بیعت کا اعلان کر دیا. پیوٹن اور اوباما تمام سرکاری اور نجی سرگرمیاں ترک کر کے پھول منڈی سے گلاب کی پتیاں خریدنے دوڑ گئے. امریکی کانگریس کا اجلاس اس لیے مؤخر کرنا پڑا کہ اکثر کانگریس مین مبارک دینے کے لیے پی آئی اے کی ٹکٹ کرا بیٹھے تھے. چینی صدر جو کہ جوگنگ کے لیے گھر سے باہر نکلے تھے نواز شریف کی صحتیابی کا سن کر سائیکل دوڑاتے ہوئے خنجراب پاس کے رستے رائیونڈ آن اُترے. پشاور کے مولانا پوپلزئی نے یہ خبر سن کر کہا کہ اب چاند دیکھنے کی ضرورت ہے نہ شہادتوں کی. اب ہر روز عید اور ہر رات شبِ برات ہے. خورشید ندیم نے کہا کہ مادے اور روح کی ثنویت اب باطل ہو گئی کہ دونوں کے ادغام سے نواز کو جو دوام ملا ہے یہ جمہور اور معاشرت کے افق پر اک نئے روحیتی ڈسکورس کی نمود ہے. سلیم صافی نے کہا کہ افغان لویا جرگہ جو پانچ صد سالہ پختون ولی کوڈ پر غور کر رہا تھا اس خبر کے بعد رائیونڈ کے پنجابی کو اپنا امیر بنانے پر متفق ہو گیا. مزید برآں آئی سی آئی جے نے ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے نا ھنجار نمائندوں نے جو بے پرکی اڑائی تھی اس سے ہم مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں.
ظفر قابل بھائی نے اطلاع کی ہے کہ کل شب ھنگامی صورتحال کے باعث مادام تساؤ کے میوزیم کو مقفل کرنا پڑا کہ گاندھی، کینیڈی ، اور امیتابھ کے مجسمے بھی میاں صاحب کی تیمارداری کو جانے پر بضد تھے. 
سپورٹس کے میدان سے خبر آئی ہے کہ ڈی جی براوو نے کہا ہے کہ "نواز شریف اِز آ چیمپین اینڈ آئی ایم نو مور". کرس گیل اور سمنز نے بھی گلدستے اور فلائنگ کسز بھیجی ہیں. 
قصہ کوتاہ چہار دانگ عالم سے عقیدت مندوں کے ٹولے رائیونڈ کو روانہ ہو گئے ہیں. جاتی امراء کے باہر ارادتمندوں کی منڈلی جمع ہورہی ہے. عامر لیاقت دعا کرا رہے ہیں اور ہر آنکھ خوشی سے زار زار ہے.

Sunday, 4 October 2015

خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جنگ لگی ہے تو جانیں بھی جائیں گی۔ عوام سے التماس ہے حوصلہ رکھیں دشمن بھی جنگ لڑنے آیا ہے طفل تماشا کرنے نہیں . راحیل شریف کوئی اژدر شعلہ فشا ں نہیں کہ ایک روز میں دہائیوں سے پلنے والے ناسور کوبھسم کر ڈالیں قوم کوصبر اور حوصلے سےساتھ دیناہو گا . جنگیں لہو کا خراج مانگتی ھیں۔ اقبال لہوری کے لفظوں میں "خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا" کیپٹن اسفند یار فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز کرنل شجاع خانزادہ اے پی ایس کے بچے ہزارہ کمیونٹی کے مظلومین، سب نے اپنے خون سے ھمارے دلوں دماغوں کی تحریر بدل ڈالی ہے۔ اس قہر آمیز جنگ کے طول المناکی نے ریاست اور قوم کو اک کڑے امتحان میں مبتلا کر رکھا ہے مگر اب تیرگی میں تنویر کے کچھ آثار نظرآنا شروع ہوۓ ہیں کہ بیانیہ بدل رہا ہے ۔ اب عوام نے مذھب کی سرشاری کے ساۓ تلے دہشت و وحشت کو قبو ل کرنے سے انکارکر دیا ہے . تقدس منبر ومحراب کی آڑ میں نفرتو ں کے پرچار کو اب عوامی ہمدردی ملنا بند ہوگئ ہے اب لوگ عظمت و عقیدت کےفساروں کو توڑ کر حرمت جاں کی بات کرنے لگے ہیں دھشت کے پرچارک شوال اور خیبر ایجنسی تک محدودہو گۓ ہیں جہاں جنرل راحیل اور ائر چیف مارشل سہیل ان پر آتش وآہن برسا رہے ہیں ۔ اس آگ کی چنگاریاں ہماری شہری آبادیوں تک بھی آئیں گی کیونکہ کچھ ہمدرد اور سہولت کار ابھی تک ارض پاک کے طول و بلدمیں موجودہیں جنکے تدارک کیلئے کٹھن لڑائی ہماری منتظر ہے اس طویل رات کے چراغ کو لہو کا ایندھن دینا ہو گا۔ کئ جری جوانو ں کو اس خونی کھیت کی کھادہونا ہو گا تب ہی فصل گل دوبارہ کھلے گی-
عدل جمہور اور وردی کو ایک فریکؤنسی پہ آ کر ریاست کے دفاع کو مضبوط بناناہو گا تاکہ ہماری اگلی نسلیں امن و آشتی کے گہوارے میں جی سکیں. فیض صاحب کے لفظوں میں
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

Wednesday, 8 July 2015

Noose Tightening in Sindh

Noose is fast tightening and the strangest bed fellows are coming close to commingle. Political landscape seems to be in a rapid peel-off mode unfolding more drama everyday. Bruit or substance, heaps of evidence are piling up against MQM. Already deranged Altaf is more perturbed. With most of front men under the fist of defence establishment, 'Widower Bhutto' and 'Adi' have flown to Dubai. Whilst the Karachi cauldron is boiling at fullest, Nawaz is rudderless as usual. In a show of brandishing the firearms, Army is affirming the resolve to rid the unwanted as per "Raheel resolve". Given the exceptional agitational capabilities of MQM and PPP, mishandling can lead to nightmarish unrest in Sindh. In the hindsight, need I say more or you can feel : "Winter is coming"