جنگ لگی ہے تو جانیں بھی جائیں گی۔ عوام سے التماس ہے حوصلہ رکھیں دشمن بھی جنگ لڑنے آیا ہے طفل تماشا کرنے نہیں . راحیل شریف کوئی اژدر شعلہ فشا ں نہیں کہ ایک روز میں دہائیوں سے پلنے والے ناسور کوبھسم کر ڈالیں قوم کوصبر اور حوصلے سےساتھ دیناہو گا . جنگیں لہو کا خراج مانگتی ھیں۔ اقبال لہوری کے لفظوں میں "خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا" کیپٹن اسفند یار فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز کرنل شجاع خانزادہ اے پی ایس کے بچے ہزارہ کمیونٹی کے مظلومین، سب نے اپنے خون سے ھمارے دلوں دماغوں کی تحریر بدل ڈالی ہے۔ اس قہر آمیز جنگ کے طول المناکی نے ریاست اور قوم کو اک کڑے امتحان میں مبتلا کر رکھا ہے مگر اب تیرگی میں تنویر کے کچھ آثار نظرآنا شروع ہوۓ ہیں کہ بیانیہ بدل رہا ہے ۔ اب عوام نے مذھب کی سرشاری کے ساۓ تلے دہشت و وحشت کو قبو ل کرنے سے انکارکر دیا ہے . تقدس منبر ومحراب کی آڑ میں نفرتو ں کے پرچار کو اب عوامی ہمدردی ملنا بند ہوگئ ہے اب لوگ عظمت و عقیدت کےفساروں کو توڑ کر حرمت جاں کی بات کرنے لگے ہیں دھشت کے پرچارک شوال اور خیبر ایجنسی تک محدودہو گۓ ہیں جہاں جنرل راحیل اور ائر چیف مارشل سہیل ان پر آتش وآہن برسا رہے ہیں ۔ اس آگ کی چنگاریاں ہماری شہری آبادیوں تک بھی آئیں گی کیونکہ کچھ ہمدرد اور سہولت کار ابھی تک ارض پاک کے طول و بلدمیں موجودہیں جنکے تدارک کیلئے کٹھن لڑائی ہماری منتظر ہے اس طویل رات کے چراغ کو لہو کا ایندھن دینا ہو گا۔ کئ جری جوانو ں کو اس خونی کھیت کی کھادہونا ہو گا تب ہی فصل گل دوبارہ کھلے گی-
عدل جمہور اور وردی کو ایک فریکؤنسی پہ آ کر ریاست کے دفاع کو مضبوط بناناہو گا تاکہ ہماری اگلی نسلیں امن و آشتی کے گہوارے میں جی سکیں. فیض صاحب کے لفظوں میں
عدل جمہور اور وردی کو ایک فریکؤنسی پہ آ کر ریاست کے دفاع کو مضبوط بناناہو گا تاکہ ہماری اگلی نسلیں امن و آشتی کے گہوارے میں جی سکیں. فیض صاحب کے لفظوں میں
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم